تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

شہزادے کی روح

یونان کا ملک حسن، خوب صورتی اور دیو مالائی داستانوں کے لیے بہت مشہور ہے۔ آج ہم آپ کو یونان کی ایک ایسی ہی خوبصورت اور قدیم داستان سنا رہے ہیں۔

بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ وہ بادشاہ ملک یونان پر حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے گھر کوئی اولاد نہ تھی۔ بادشاہ بہت پریشان رہتا تھا۔ بہت دعائیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا سن لی اور اسے ایک خوبصورت شہزادہ عطا کیا۔ بادشاہ بے حد خوش ہوا۔

اس نے پورے ملک میں تین دن تک خوب جشن منایا۔ لوگوں میں تحائف تقسیم کیے اور کھانا کھلایا۔ بچّو! ننھا شہزادہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ گلابی، گلابی چہرہ، سنہری ریشم کی طرح بال، کھڑی ناک اور گہری سیاہ روشن چمک دار آنکھیں، خوب صورت دل موہ لینے والی مسکراہٹ جو بھی دیکھتا وہ شہزادہ کو پیار کیے بغیر نہیں رہتا۔ شہزادہ بہت عیش اور ناز و نعم سے پالا گیا۔ جب وہ تھوڑا سا بڑا ہوا تو بادشاہ نے اس کے لیے استاد مقرر کر دیے۔ یہ شہزادے کو ابتدائی عمر ہی سے تعلیم و تربیت سکھانے لگے۔

شہزادہ بہت ذہین تھا۔ جلد ہی سب کچھ سیکھنے لگا۔ اسی طرح شہزادہ بڑا ہوتا گیا۔ شہزادہ جہاں جاتا تھا سب لوگ اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریف کرتے اور اسے دیکھنے کے لیے رش لگ جاتا۔ شہزادہ بہت خوبصورت تھا۔ سب کی باتیں سن کر شہزادہ کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنی صورت دیکھے کہ وہ کتنا خوبصورت اور حسین ہے کہ اسے سب پسند کرتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔

پیارے بچّو! یہ اس زمانے کی بات ہے جب آئینہ ایجاد نہیں ہوا تھا بلکہ اور بھی بہت ساری سائنس کی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ لوگ بہت سادہ اور آسان زندگی گزارتے تھے۔ شہزادے کی یہ خواہش بڑھتی گئی کہ وہ کسی طرح اپنی شکل دیکھے مگر وہ دیکھتا کس طرح؟ اسے کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ جب کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا تو شہزادہ افسردہ ہوگیا۔ اب شہزادہ اداس رہنے لگا۔ سب نے بہت کوشش کی مگر شہزادے کے دوستوں نے شکار کا پروگرام بنایا اور شہزادہ کو زبردستی جنگل میں لے گئے تاکہ اس کا دل بہل سکے۔

یہ جنگل بھی بہت بڑا اور گھنا تھا۔ بہت سارے گھنے اور سبز درخت تھے۔ بیلیں لگی تھیں، جن پر خوبصورت پھول لگے تھے۔ گھنی گھاس تھی۔ شہزادے کے دوست اسے لے کر بہت دور دور تک جنگل میں گھومے۔ ہرن، تیتر اور خرگوش شکار کیے۔ وہ لوگ اب بہت تھک گئے تھے چنانچہ طے پایا کہ کہیں رک کر خیمہ لگایا جائے اور گوشت بھنا جائے۔ ایک وزیر نے بتایا جنگل کے مشرقی سمت ایک خوبصورت جھیل ہے جس کے گرد خوبصورت پھولوں کی بیلیں اور گھاس اگی ہے۔ وہ جگہ کیمپ کے لیے مناسب رہے گی۔

چنانچہ سب مشرق کی سمت چل پڑے۔ وہاں واقعی میں ایک بہت بڑی شفاف جھیل تھی جس کے کنارے بہت سارے خوبصورت پھولوں کے پودے تھے۔ جگہ جگہ گھنے درخت تھے جن کے سایے سے زمین ڈھکی ہوئی تھی۔ سب نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سب گھوڑوں سے اتر گئے اور خیمہ لگا لیا۔ شہزادہ بہت تھک گیا تھا۔ وہ گھوڑے سے اتر کر جھیل کی طرف بڑھ گیا تاکہ ہاتھ منہ دھو کر تازہ دم ہو کر خیمہ میں آکر آرام کر سکے۔ جھیل کا پانی ساکت اور شفاف تھا۔ جیسے ہی شہزادے نے جھک کر پانی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ ایک دم ٹھٹھک گیا۔

جھیل کے شفاف اور ساکت پانی میں شہزادہ کا عکس نظر آرہا تھا۔ عکس شبیہ کو کہتے ہیں یعنی نقلی شکل جس کو ہم چھو نہ سکیں مگر وہ اصل کی طرح ہی ہوتی ہے۔ شہزادہ حیران ہو کر پانی میں دیکھنے لگا۔ پانی میں سنہرے ریشمی بالوں، گہری سیاہ چمک دار آنکھیں اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ ایک خوبصورت شکل نظر آرہی تھی۔ شہزادہ مبہوت ہو کر اپنی شکل دیکھتا رہا پھر اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھا کر اپنے چہرے کو چھوا، پانی میں موجود عکس میں بھی حرکت ہوئی۔

اب شہزادے نے آنکھیں جھپکیں۔ شہزادہ مسکرایا عکس بھی مسکرایا۔ شہزادہ حیران ہوگیا۔’کیا یہ واقعی میں ہوں؟‘ شہزادے نے بہت لوگوں کو دیکھا تھا مگر پانی میں نظر آنے والا عکس اتنا خوبصورت تھا کہ شہزادے کو اس بات پر یقین آگیا کہ لوگ اس کی خوبصورتی اور حسن کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ غلط نہیں۔

جب وہ خود اپنا عکس دیکھ کر مبہوت ہوگیا تو دوسرے کیوں نہیں ہوں گے۔ آج شہزادے کی برسوں کی چھپی دلی آرزو پوری ہوئی تھی۔ شہزادے نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب نے اسے بہت سمجھایا مگر شہزادے نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اب شہزادہ وہیں رہنے لگا۔

اس کے لیے وہیں بادشاہ نے ایک گھر بنا دیا۔ مگر شہزادہ سارا وقت جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا اور اپنا عکس دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ بادشاہ نے اور سب لوگوں نے شہزادے کو سمجھایا کہ وہ دنیا کے اور کاموں میں حصہ لے اور محل واپس چلے مگر شہزادہ نے کسی کی بات نہ مانی۔ بادشاہ شہزادے کی یہ محویت دیکھ کر بہت افسوس کرتا مگر شہزادہ اپنے حال میں مگن رہتا۔

محل میں رہنے والا اتنے عیش میں پلنے والا شہزادہ کہاں جنگل کے موسم کی سختی برداشت کر سکتا تھا۔ جب کہ وہ گھنٹوں جھیل کے کنارے بیٹھا رہتا وہیں کھاتا۔ وہیں سوتا۔ آخر شہزادے کی صحت خراب ہوگئی۔ بہت علاج کروایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور ایک دن مر گیا۔

مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ اسے جھیل کے کنارے ہی دفن کیا جائے۔ بادشاہ نے اس کی وصیت پوری کر دی۔ کچھ عرصے بعد جھیل کے کنارے پانی میں ایک پودا نکلا۔ یہ اسی جگہ سے پیدا ہوا تھا جہاں شہزادے کو دفنایا گیا تھا۔ پودا بڑا ہوگیا تو اس میں ایک انتہائی خوبصورت پھول نکلا۔ پھول اس قدر خوب صورت تھاکہ جو دیکھتا مبہوت ہوجاتا۔

مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پھول کی تمام پتیوں کا رخ پانی کی طرف تھا۔ لوگوں نے اس خوبصورت پھول کو توڑ کر دوسری جگہ لگانے کی کوشش کی مگر وہ مرجھا گیا۔ یونان کے لوگ کہتے ہیں کہ اصل شہزادہ جھیل کے پاس رہنا پسند کرتا تھا۔ اس طرح یہ پھول بھی خوبصورت جھیل کے پانی میں ہی رہتا تھا اور شہزادے ہی کی طرح پانی میں اپنا عکس دیکھتا رہتا ہے۔

بچّو! کبھی تم کلری جھیل کی طرف جاؤ تو بہت آگے جاکر دیکھنا تمہیں بہت سارے خوبصورت پھول نظر آئیں گے جو پانی کی طرف اپنی پتیاں جھکائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ پھول ہیں جسے یونان کے لوگ شہزادے کی روح اور ہم لوگ کنول کا پھول کہتے ہیں۔

(یونان کی لوک کہانی، ترجمہ و تدوین حمیرا خاتون)

Comments

- Advertisement -