پیر, نومبر 18, 2024
اشتہار

محسنِ اردو جنھیں ان کی کتاب نے ‘رُسوا’ کیا!

اشتہار

حیرت انگیز

غالب کو شعروں‌ کے انتخاب نے رُسوا کیا تھا، لیکن گیان چند جین کو ان کی آخری تصنیف نے۔ یہ "ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب” کے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب تھی جو متنازع ٹھیری۔ انھوں نے اپنی اس کتاب سے سرحد کے دونوں پار بسنے والے اردو داں طبقے، ادبی حلقے اور بالخصوص مسلمانوں کو خود سے متنفر کر دیا۔

گیان چند جین کی کتاب پڑھنے کے بعد بعض ادبا اور شعرا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس میں زبان و بیان کی کئی غلطیاں ہیں‌، جن کا صدور گیان چند جیسے بڑے قلم کار سے محال ہے۔ اس کا مکمل متن غالباً ان کی نظروں سے نہیں‌ گزرا، ورنہ ایسی لغو باتیں اور زبان و ادب اور مسلمانوں سے متعلق یہ سب کچھ کتاب میں شامل نہ ہوتا۔ مگر یہ خیال کسی قدر بھی درست معلوم نہیں‌ ہوتا۔ ہاں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنّف کو ان کی پیرانہ سالی نے اس ‘قلمی سہو’ پر آمادہ کر لیا ہو گا۔ اس کے باوجود مصںّف کی اس تلخ نوائی کو نظر انداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ ہر چند کہ گیان چند جین نے اپنی کتاب کے اوّلین اوراق میں اپنے ‘کیے’ کو چند سطور میں‌ ‘جامۂ جواز’ بھی پہنایا ہے، لیکن ان کے الفاظ اہلِ اردو اور ادبا و شعرا کی اکثریت کی تشفی نہیں کرسکے۔ انھوں نے جو جواز پیش کیا، اسے غالب کے اس شعر سے سمجھیے:

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

- Advertisement -

گیان چند جین کی کتاب اپنے ابواب کی صورت میں دل آزار اور مباحث کے سبب متنازع فیہ ضرور ہے جس کا اردو ادب کی نہایت قابل اور ممتاز شخصیت شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے ‘پوسٹ مارٹم’ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"ہمارے نام ور دوست، بزرگ محقّق، مؤرخِ ادب، شاعر اور بزعمِ خود ماہرِ لسانیات پروفیسر گیان چند جین نے تاحیات اردو زبان و ادب کی تدریس اور خدمت کی ہے۔ ان کی کئی کتابوں کے بارے میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی جگہ مدّتِ مدید تک قائم رہے گی۔ تصنیف و تعلیم کے اس محترم اشرافی پیشے سے انہوں نے نام اور عزّت بھی خوب کمائی ہے۔ اب وہ عمر کی آخری منزلیں طے کر رہے ہیں اور انہیں شاید یہ خیال آرہا ہے کہ ساری عمر اردو پڑھ پڑھا کر انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے اور اب اس کا پرائشچت یوں کیا جانا چاہیے کہ اردو کو، اور اس کے بولنے والوں کو، لسانی تنگ نظری، سماجی استحصال، سیاسی علیحدگی پسندگی اور بالآخر پاکستان نوازی کے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔”

شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے اس کتاب کے عنوان پر تنقید کے بعد لکھا ہے، "یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں، بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابنائے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لیے لکھی گئی ہے۔”

آئیے گیان چند کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا۔ انھوں‌ نے اگست کے مہینے میں کیلیفورنیا، امریکا میں وفات پائی۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔ گیان چند برصغیر پاک و ہند کے معروف نقّاد، محقق، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا وطن سیوہارہ، ضلع بجنور، یوپی ہے جہاں انھوں نے 1923ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا مذہبی اعتقاد جین مت پر تھا اور وہ اگروال تھے۔ والد کا نام بحال سنگھ تھا، اور والدہ پاروتی سناتن تھیں۔ گیان چند جین کے مطابق ان کے پَردادا فارسی کے عالم تھے اور شاعر بھی تھے جن کے فارسی مخطوطات بھی گیان چند جین کے گھر میں محفوظ ہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ مسلم قدرت اسکول سوہارا سے آٹھویں درجے کا امتحان پاس کرنے کے بعد مراد آباد سے 1939ء میں ہائی اسکول کیا۔ گورنمنٹ انٹر کالج، مراد آباد سے 1941ء میں انٹر کیا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے 1943ء میں بی اے پاس کیا۔ ایم اے کے بعد اردو داستانیں کے موضوع پر ڈی فل کی ڈگری لی اور 1956ء میں آگرہ یونیورسٹی میں ڈی لٹ میں داخلہ لیا اور 1960ء میں سند یافتہ ہوئے۔ لسانیات کی تعلیم بھی مکمل کی۔

گیان چند جین نے ارملا نامی لڑکی کو اپنا شریکِ‌ حیات بنایا اور 1953ء میں سہارن پور میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ ان کا دھرم بھی سناتن تھا۔ اس سے قبل 1950ء میں گیان چند حمیدیہ کالج بھوپال میں اردو کے مدرّس مقرر ہوئے تھے اور بعد میں اسی کالج میں پروفیسر ہوگئے۔ بعد میں‌ گورنمنٹ ڈگری کالج میسور کے پرنسپل بنے۔ 1965ء میں جموں کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے گیارہ سال ملازمت کی اور اس کے بعد 1976ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر و صدر شعبۂ اردو ہوگئے۔

گیان چند جین کے ادبی سفر کی بات کریں‌ تو وہ ایک ادیب اور محقق کی حیثیت سے مسلسل کام کرتے رہے اور بے حد فعال اور متحرک رہے۔ انہوں نے داستان اور مثنوی پر بطور خاص کام کیا ہے اور یہ متعلقہ کتابیں اردو زبان میں‌ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ لسانیات سے ان کا شغف گہرا رہا اور تاریخِ ادب سے بھی خوب دل چسپی رہی۔

’’اردو کی نثری داستانیں‘‘، ڈی لٹ کا مقالہ ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘، ’’تفسیرِ غالب‘‘ جو غالب کے قلم زد کلام کی شرح ہے اور ایک دوسری کتاب ’’رموزِ غالب‘‘ گیان چند جین کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ تحقیق و تنقید کا ایک مجموعہ ’’حقائق‘‘ ،’’ذکر و فکر‘‘ اور ایک ضخیم کتاب ’’عام لسانیات‘‘ بھی گیان چند جین کی اہم اور قابلِ تذکرہ تصنیف ہے۔ گیان چند جین نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے اور علم و تحقیق کے میدان میں اپنی انتھک محنت، اردو زبان سے متعلق اپنی فکر اور سعی کو ثابت کیا ہے۔ وہ ادبی دنیا میں‌ اپنے موضوعات اور تصانیف کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔

اگر گیان چند جین کی ادبی حیثیت اور مرتبے کو ان کی متنازع کتاب "ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب” کے بعد دیکھیں‌ تو اس میں‌ ان کی شخصیت ماند پڑ گئی اور ان پر کڑی تنقید کی گئی جب کہ وفات کے بعد پاکستانی اخبارات اور رسائل میں ان کی یاد میں‌ کوئی وقیع تحریر شائع نہیں ہوئی۔ عارف وقار نے بی بی سی اردو کے لیے اپنے مختصر مضمون میں‌ لکھا، اہلِ اردو کے لیے گیان چند کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ جدید لسانیاتی اُصولوں کے مطابق اُردو زبان کا تجزیہ کیا۔

سن پچاس کی دہائی تک اُردو لسانیات کا کُل اثاثہ محی الدین زور کا ایک تحقیقی مقالہ تھا۔ منشی احمد دین، عبدالقادر سروری اور وحید الدّین سلیم نے اردو الفاظ کی تحقیق میں کچھ کام کیا تھا لیکن اِن مضامین کی پہنچ وہیں تک تھی جہاں تک انیسویں صدی میں مارفالوجی کا عِلم پہنچ سکا تھا۔

بیسویں صدی کے دوران علمِ لسانیات کی مختلف شاخوں میں ہونے والی تحقیق تک رسائی حاصل کرنا اور پھر اس کی روشنی میں اردو کے صوتی، صرفی اور نحوی ڈھانچے کا جائزہ لینا ایک ایسا بھاری پتھر تھا جسے احترام سے چُوم کر پیچھے ہٹ جانے والے تو بہت تھے، لیکن اُسے اٹھانے کی ہمّت گیان چند جین جیسا پُرعزم شخص ہی کر سکا۔

‘اردو کا فراموش کردہ محسن: گیان چند’ کے عنوان سے اپنے مضمون میں‌ عارف وقار مزید لکھتے ہیں: گیان چند کے لسانیات کی طرف مائل ہونے کی داستان بھی دل چسپ ہے، کیونکہ اردو ادب سے اُن کی شناسائی شاعری کے ذریعے ہوئی تھی۔

1923 میں ضلع بجنور کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والے گیان چند نے چودہ برس کی عمر میں خود بھی غزل کہنی شروع کر دی تھی۔

کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر انھوں نے حمیدیہ کالج بھوپال میں درس و تدریس کا کام شروع کیا اور کچھ عرصے بعد شعبۂ اردو کے صدر بن گئے۔

1956 میں جب اِس کالج میں ایم ۔ اے اردو کی کلاسیں شروع ہوئیں تو نصاب میں ایک پرچہ لسانیات کا بھی تھا۔ اس وقت اردو میں توضیحی لسانیات پر کوئی مبسوط اور جامع تحریر موجود نہیں تھی جب کہ انگریزی میں بلوم فیلڈ کی کلاسیکی کتاب کے علاوہ گلیزن جونیئر کی معرکہ آرا کتاب بھی 1953 میں منظرِ عام پر آچکی تھی۔

واضح رہے کہ سنسکرت تدریس کی قدیم روایت کے پس منظر میں ہندی زبان، قواعد و لسانیات کے مضامین سے مالا مال تھی اور جدید لسانیاتی تحقیق کو بھی اپنے دامن میں فراخ دِلی سے جگہ دے رہی تھی۔ لسانیات پر بھولا ناتھ تیواڑی کی ہندی کتاب دیکھ کر گیان چند کا دِل چاہا کہ اس پائے کی ایک کتاب اردو میں بھی ہونی چاہیے، چنانچہ انھوں نے قلم سنبھالا اور لکھنے میں جُٹ گئے۔

یہ 1962 کا زمانہ تھا۔ تین برس بعد ان کا تبادلہ جمّوں میں ہو گیا۔ وہاں جاکر لسانیات پر مزید کتابیں پڑھیں تو انھیں احساس ہوا کہ بھوپال میں لکھے ہوئے مضامین تو کسی طفلِ مکتب کی شوقیہ تحریریں تھیں، چنانچہ تحقیق کا کام نئے سرے سے شروع کیا اور اس نئی تفتیش کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ علمِ صوتیات ایک ایسی سائنس ہے جو کتابوں کی مدد سے سمجھ میں نہیں آسکتی چنانچہ انھوں نے لسانیات کے ایک سمر اسکول میں داخلہ لے لیا اور اردو آوازوں کے اتار چڑھاؤ کا عملی طور پر مشاہدہ کیا۔ تاہم اردو لسانیات پر ایک کتاب مرتب کرنے کا خواب 1975 تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، لیکن جب کتاب چھپ کر سامنے آئی تو چودہ برس کی محنت شاقہ سپھل ہوگئی۔ عام لسانیات نامی اس کتاب کو ترقیٔ اردو بیورو نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ انسانی زبان کی عمومی خصوصیات اور زبان کے تاریخی ارتقاء کے ساتھ ساتھ لسانیات کی مختلف شاخوں مثلاً لسانی فردیات، لسانی عتیقیات، نسلی لسانیات، علاقائی لسانیات، سماجی لسانیات، نفسیاتی لسانیات، اعدادی لسانیات اور ریاضیاتی لسانیات جیسے ادق تکنیکی موضوعات پر اردو میں خامہ فرسائی کی گئی۔

کتاب کے آخری باب میں علمِ زبان کے مطالعے کی تاریخ، قدیم ہند میں لسانیات، مغرب میں لسانیاتی مطالعے، یورپ میں ہندوستانی زبانوں کے مطالعے اور بیسویں صدی میں لسانیات کے مختلف مدرسہ ہائے فکر پر جو مضامین تحریر کیے گئے وہ لسانیات کے طلباء کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام قاری کےلیے بھی انتہائی دل چسپ مطالعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

32 برس پہلے اپنی کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے آنجہانی گیان چند نے کہا تھا:
’اردو میں اس موضوع پر روز روز کتابیں نہیں لکھی جائیں گی۔ اگر کبھی دوسرے ایڈیشن کی نوبت آئی تو نقشِ ثانی کو بہتر کرسکوں گا۔‘

آنجہانی گیان چند کی اس کتاب کے کئی باب میں جہاں‌ اردو زبان کی مخالفت اور لعن طعن ملے گا، وہیں مصنّف نے مسلمان مشاہیرِ ادب کو ہندو ادبا و شعرا سے بغض و عناد رکھنے والا بھی بتایا ہے اور اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہیں کوئی واقعہ بیان کیا ہے تو کہیں تحریروں سے حسد اور کینہ پروری کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

گیان چند تو اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے ہیں، لیکن ان کی کتاب کا قلمی نسخہ بھی بازار میں‌ دست یاب ہو گا اور انٹرنیٹ پر تو یہ کتاب محفوظ ہی ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کا مبتدی یا ادب کا طالبِ علم خود مصنّف کی اردو زبان و ادب کے لیے خدمات اور ان کے کام سے متعلق الجھن کا شکار ضرور ہوگا۔

گیان چند نے اسی زبان اور اس زبان میں‌ تخلیق ہونے والے ادب پر اپنے تحقیقی اور تنقیدی کام کی بدولت نہ صرف نام و مقام بنایا بلکہ متعدد اعزاز بھی اپنے نام کیے۔ اردو زبان و ادب کے اس محسن نے آخری عمر جانب داری سے کام لیتے ہوئے لسانی اور ادبی تحقیق کے نام پر اتنی بھونڈی اور ہلکی باتیں کیوں‌ کیں؟ یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا، لیکن ان کے زاویۂ فکر و نظر کے اس تغیّر اور ان کی تھیوریز کا مدلّل جواب تاریخی اور لسانی تناظر میں دینے کی ضرورت ہے۔

اردو زبان و ادب کی ممتاز ہستیوں اور معروف شخصیات نے اس کتاب کو جین صاحب کے بڑھاپے اور اس کے سبب لاحق امراض کا نتیجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کتاب میں ایسی باتیں‌ لکھ دیں جن کا اس موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ سیدھے سادے الفاظ میں‌ "ایک بھاشا دو لکھاوٹ، دو ادب” کو مصنّف کے بڑھاپے کی خطا بھی کہہ دیا گیا، لیکن کیا گیان چند جین کی اس ‘بھول’ کو اردو ادب کی تاریخ‌ فراموش کرسکے گی؟

Comments

اہم ترین

مزید خبریں