تل ابیب: نیتن یاہو کی سرکار نے اسرائیلی اخبار ہاریٹز پر پابندیاں لگا دی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی حکومت نے ملک کے سب سے پرانے اخبار ’ہاریٹز‘ پر پابندیوں کی منظوری دے دی ہے، سرکار کا کہنا ہے کہ اخبار نے اپنی تحریروں کے ذریعے ریاست کو نقصان پہنچایا۔
اسرائیلی کابینہ میں ہاریٹز اخبار کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے اور سرکاری فنڈنگ کرنے والے اداروں کو اخبار کے ساتھ رابطہ کرنے یا اشتہار دینے پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔
اتوار کو ہاریٹز اخبار نے رپورٹ کیا کہ نیتن یاہو سرکار نے یہ فیصلہ اُن مضامین کی وجہ سے کیا ہے جس نے بہ قول حکومت، اسرائیل کی ریاست کے جواز اور اس کے اپنے دفاع کے حق کو ٹھیس پہنچائی ہے، خاص طور پر لندن میں ہاریٹز کے پبلشر اموس شوکن کے تبصروں نے جو دہشت گردی کی حمایت میں ہیں اور جن میں اسرائیلی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق ہاریٹز اخبار، جو کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، کے خلاف اس فیصلے کو وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے منظور کیا، حالاں کہ کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے حکومتی ایجنڈے میں یہ شامل نہیں تھا۔
ہاریٹز اخبار نے اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر رد عمل میں اس بائیکاٹ کو حکومت کی جانب سے موقع پرستی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرارداد کسی قانونی نظر ثانی کے بغیر منظور ہوئی ہے، اور یہ اسرائیلی جمہوریت کو ختم کرنے کی جانب نیتن یاہو کے سفر میں ایک اور قدم ہے۔
اخبار نے نیتن یاہو کو حیرت انگیز طور پر کئی دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاتے ہوئے مزید لکھا کہ وہ ’’اپنے دوستوں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان، اور ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کی طرح ایک تنقیدی، آزاد اخبار کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہاریٹز باز نہیں آئے گا اور حکومتی پمفلٹ کی شکل اختیار نہیں کرے گا، جو حکومت اور اس کے رہنما کی طرف سے منظور شدہ پیغامات شائع کرتا ہے۔‘‘
حزب اللہ نے اہم پہاڑی محاذ سے اسرائیلی ٹینکوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، 6 تباہ
ہاریٹز کے کالم نگار گیڈون لیوی نے الجزیرہ کو بتایا کہ حکومتی پابندیوں نے سیاسی اور اخلاقی طور پر ایک بہت برا پیغام بھیجا ہے، بہت سے لوگ ہاریٹز کو اسرائیل کا واحد اخبار سمجھتے ہیں کیوں کہ تقریباً تمام میڈیا اداروں نے خود کو حکومت اور فوج کے بیانیے کے لیے مکمل طور پر مختص کر لیا ہے اور اسرائیلیوں کو یہ نہیں دکھایا گیا کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔
میڈیا ادارے کا اسرائیلی حکومت کے ساتھ تنازعہ گزشتہ ماہ لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب پبلشر شوکن نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت بالکل پروا نہیں کر رہی کہ وہ فلسطینی آبادی پر نسل پرستی کی ظالمانہ حکومت مسلط کر رہی ہے۔ شوکن نے حماس کے جنگجنوؤں کو ’فلسطینی آزادی پسند‘ کہا اور کہا کہ اسرائیل انھیں ’دہشت گرد‘ کہتا ہے۔