منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

اشتہار

حیرت انگیز

حبیب ولی محمد کی پُرسوز آواز اور مخصوص طرزِ گائیکی آج بھی ایک نسل کی سماعتوں میں تازہ ہے اور سننے والوں کو اس گلوکار کی یاد دلاتا ہے۔ حبیب ولی محمد نے غزلیں، ملّی نغمات اور فلمی گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ آج اس گلوکار کی برسی ہے۔

4 ستمبر 2014ء کو حبیب ولی محمد انتقال کرگئے۔ وہ عرصہ سے امریکا میں مقیم تھے اور 93 سال کی عمر میں وہیں وفات پائی۔ حبیب ولی محمد نے گلوکاری کو بطور پیشہ نہیں اپنایا بلکہ وہ شوقیہ گاتے تھے۔ سامعین اور ناظرین کی فرمائش پر ان کی آواز میں غزلیں اور گیت ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے تھے۔

گلوکار حبیب ولی محمد کا آبائی وطن برما تھا۔ انھوں نے 1921ء میں برما کے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا اور تقسیمِ ہند کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی تھے اور پاکستان میں انھوں نے کاروبار پر توجہ دینے کے ساتھ اپنے شوق کی خاطر گلوکاری کا سفر بھی جاری رکھا۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

- Advertisement -

حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی رہی۔ بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب اور دیگر بڑے شعرا کا کلام ان کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘، ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ وہ کلام ہے جو حبیب ولی محمد کی آواز میں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے علاوہ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

انھیں بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ حبیب ولی محمد نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انھیں فلم کے لیے گلوکاری پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نوجوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ وہ کالج کے زمانے میں موسیقی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ 1941ء میں حبیب ولی محمد نے ایک مقابلۂ گائیکی میں اوّل انعام بھی حاصل کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں