حیدر دہلوی کو فنِ شاعری پر ان کے عبور اور ان کی سخن گوئی کے سبب خیّامُالہند کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شعرا میں استاد شاعر کا درجہ رکھتے تھے۔ آج حیدر دہلوی کا یومِ وفات ہے۔
حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ وہ تیرہ برس کی عمر سے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے اور جلد ہی شعرا کے درمیان پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کا تعلق شعرا کی اس نسل سے تھا جن کی اصلاح اور تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔
10 نومبر 1958ء کو حیدر دہلوی نے کراچی میں وفات پائی۔ ان کا اصل نام سید جلال الدّین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حیدر دہلوی پاکستان آگئے اور یہاں کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ کراچی میں بزم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں حیدر دہلوی نے باذوق سامعین کو متوجہ کیے رکھا۔ اردو ادب اور شعرا سے متعلق کتب میں حیدر دہلوی کی زندگی، ان کی شاعری اور یادگار مشاعروں کا تذکرہ ہے اور بعض ادبی واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو حیدر دہلوی اور ان کے ہم عصر شعرا سے متعلق ہیں۔
انھوں نے اپنی شاعری بالخصوص خمریات کے موضوع کو اپنے تخیل سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں خیامُ الہند کہلائے۔ حیدر دہلوی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ انھیں کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
حیدر دہلوی کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔
چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی