اعتراضات کا پہلا رُخ صاحبِ آبِ حیات کے حق میں جاتا ہے کہ جنھوں نے آپ کا ذکر لائقِ تذکرہ ہی نہ جانا۔
پھر طباعتِ ثانی میں شامل روایات و لطائف کا کوئی حوالہ دینا تو دور مکتوب نگار کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ پھر ایک اور فاش غلطی یہ کی کہ آپ کو دو دو شخصیات کا مرید ٹھہرایا، پہلے اپنے سسر خواجہ محمد نصیر رنج کا، پھر سید احمد شہید کا۔ مومن کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ آپ نے سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی تھی، لہٰذا آپ کو خواجہ نصیر کی بیعت سے منسوب کرنا لاعلمی سے زیادہ کئی امور کی غمازی کرتا ہے جس کا محققین بادلائل کئی جگہ ذکر کر چکے ہیں۔
واضح ہے کہ مومن کے مزاج میں رمل، نجوم اور شطرنج جیسی چند ایسی چیزیں شامل تھیں کہ جو ادبا کے ہاں مذموم نہیں مانی جاتیں، مگر سبھی تذکرہ نگاروں نے جتنی طوالت آپ کے ہنر کو دی ہے، اتنے ہی مباحثے آپ کے مزاج میں موجود ان خامیوں کو اجاگر کرنے میں رقم کر ڈالے۔ مومن پر لکھے گئے تمام تذکرے اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ سبھی آپ کے ہاں ادب سے زیادہ مذہب پر مباحث پیش کرنے اور آپ کی شخصیت کو مسخ کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً مومن جیسی عظیم شخصیت اپنے حق سے محروم ہو کر رہ گئی۔
مومن کے بارے میں یہ تو طے ہے کہ آپ کا جنّات یا مؤکلات سے کچھ واسطہ نہ تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ نجوم شناس تھے۔ ایسے میں آپ کے اس فن کا یوں بیان کرنا کہ جیسے کوئی طبیب کسی مریض کی نبض پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہو اور اس کو اُسی کی علاماتِ مرض مسلسل بتاتا چلا جائے؛ یعنی ایک آنے والا آیا، آپ نے اس کے ماتھے پر پریشانی دیکھی، پہلے پریشانی بتائی، پھر اس کی پریشانی سے جڑے ہوئے ہر ہر فرد کا حال ذکر کیا، پھر اس پریشانی کا حل بھی بتا دیا۔
ایسے طرزِ بیان سے صرف یہی متبادر ہوتا ہے کہ مومن نہ صرف علمِ غیب رکھتے تھے، بلکہ آپ کو ماورائی طاقتوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ستارہ شناسی ایک علم ضرور ہے مگر اس پر دعوائے علمِ غیب چہ معنی دارد؟
اس بارے میں ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
”اگرچہ مومن زبردست منجم تھے مگر وہ خیّام کی طرح علمِ نجوم پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔”
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھت سے گرنے کے بعد آپ نے اپنی موت کا حکم لگایا تھا کہ پانچ دن، پانچ ماہ یا پانچ سال میں مر جاؤں گا۔ اس سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے علم کی رو سے اپنی موت کا وقت جان لیا تھا۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایک طرف مرحوم کے زہد و تقویٰ کا پرچم بلند کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انھیں تقدیر کے مقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے۔
مومن نے ساری زندگی اپنی تاریخ پیدایش پر کوئی صراحت تو پیش نہیں کی جو نہایت آسان کام تھا، پھر اپنی موت پر پیش گوئی کیونکر کر سکتے تھے؟!
اس تاویل کا جواب یہ ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر اپنے مریض کے مرض کی نہ صرف نوعیت سمجھتا ہے بلکہ اس کے صحت یاب ہونے یا نہ ہونے پر جزوی رائے بھی رکھتا ہے۔ ایسے ہی مومن بھی ایک ماہر اور موروثی طبیب تھے، انھیں اپنے زخموں کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا، جس کی بنا پر انھوں نے یہ ”دست و بازو بشکست” (1268 ہجری) کہا تھا۔
نیز آزاد کا یہ اعتراف بھی قابلِ گرفت ہے کہ مومن اتنے پہنچے ہوئے تھے کہ انھیں شطرنج کھیلنے کے دوران میں بھی کشف ہوتا رہتا تھا۔ دلیل میں ایک قصہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ایک دفعہ اپنے شاگرد سکھانند رقم کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے، مومن بولے کہ ابھی پورب سے ایک چھپکلی آئے گی اور دیوار پر بیٹھی اِس چھپکلی کو ساتھ لے جائے گی، تب آپ کو مات ہوگی۔ کچھ دیر بعد ایک بزاز آیا، اس نے اپنی گٹھری کھولی اور اس سے ایک چھپکلی نکل کر دیوار پر چڑھ گئی، اس دوران سکھانند کو مات ہو گئی۔
اوّل تو اس عبارت کا نہ صرف مفہوم بلکہ اندازِ بیان بھی ہر کسی کے ہاں مختلف ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے یہی واقعہ کسی اور سے منسوب کیا ہے، لکھتے ہیں کہ یہ قصہ حضرت شاہ عضد الدین چشتی صابری کی کرامت کے ذیل میں نثار علی بخاری بریلوی نے مفتاح الخزائن (شاہ عبدالہادی چشتی امروہوی کے ملفوظات) میں بھی لکھا ہے۔
ستم بالائے ستم کہ اکثر مؤرخین نے آپ کی مثنویوں کو خود نوشت مان کر بے تکے اور طویل مباحثے لکھے ہیں، یعنی آپ نے جتنے معاشقے فرمائے، اتنی ہی مثنویاں بھی لکھیں۔ طرفہ یہ کہ آپ نے پہلا عشق نو سال کی عمر میں کیا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا تمام شعرا کے افکار جو بصورت اشعار ہم تک پہنچے ہیں، سبھی مبنی بر حقائق ہیں؟ حاشا و کلا۔
ان تاویلات کا جواب صرف یہ ہے کہ اگر ان واقعات میں کوئی صداقت ہوتی تو اس کا کوئی نہ کوئی سرا آپ کے مکاتیب (انشائے مومن) سے ضرور ملتا، یا آپ کے اوّلین تذکرہ نویس، جن کی اکثریت آپ کے تلامذہ و ہم عصر تھے، اس موضوع پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے۔
(تحریر: عبید الرّحمٰن)