سڈنی: آسٹریلوی شہر ایڈمنڈسن پارک میں ایک شخص نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گھر کی تعمیر پر 4 کروڑ روپے خرچ کیے لیکن جب اس نے گھر بننے کے بعد اسے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔
یہ واقعہ نیپال کے شہری وشنو آریال کے ساتھ پیش آیا، جو اپنی تمام تر جمع پونجی کے ساتھ اپنا ملک چھوڑ کر آسٹریلیا منتقل ہوئے تھے، انھوں نے دس سال تک بڑی محنت کی اور بچت کرتے رہے، تاکہ ایڈمنڈسن پارک میں اپنی پسند کی جگہ خرید کر اس پر اپنے ’خوابوں کا گھر‘ تعمیر کر سکے۔
بروکر وشنو آریال نے سڈنی کے مضافاتی شہر میں 7 لاکھ آسٹریلوی ڈالرز (4 کروڑ تین لاکھ روپے) خرچ کر کے جب ایک تعمیراتی کمپنی زیک ہومز کے ذریعے اس اراضی پر گھر تعمیر کروایا جسے انھوں نے 3 لاکھ 98 ہزار آسٹریلوی ڈالرز میں خریدا تھا، تو اسے دیکھ کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
مالک مکان کو تعمیراتی کمپنی نے 3 سال بعد جو گھر بنا کر دیا وہ آدھا ادھورا تھا، اسے دیکھ کر ہی عجیب سا احساس ہوتا تھا، ایک گھر جو آدھا بنا کر چھوڑ دیا گیا تھا اور بہت ہی عجیب لگ رہا تھا۔
معلوم ہوا کہ وشنو آریال نے 2016 میں تعمیراتی کمپنی کے ساتھ گھر کی تعمیر کے لیے 3 لاکھ 22 ہزار آسٹریلوی ڈالرز پر معاہدہ کیا تھا، زیک ہومز نے ایک سال میں گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا لیکن جب تین سال بعد وشنو گھر دیکھنے گیا تو پلاٹ پر صرف آدھا گھر عجیب طرح سے تعمیر ہوا تھا۔
تعمیراتی کمپنی نے آدھی اراضی پر ڈوپلیکس تعمیر کیا تھا، ڈوپلیکس گھر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن کمپنی نے اس کا ایک ہی حصہ بنا کر چھوڑ دیا تھا، اور وہاں ایک اونچی بغیر کھڑکیوں والی بھورے رنگ کی دیوار کھڑی تھی، اور وہاں پلاٹ کا آدھا حصہ خالی پڑا تھا۔
آریال نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ جب ہم نے سپروائزر سے پوچھا کہ یہ گھر ایسا کیوں ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ ڈوپلیکس ہے، سیمی ڈوپلیکس۔ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں نے کہا مجھے میرا پورا گھر چاہیے، یہ کوئی گھر نہیں ہے، نہ ہی ڈوپلیکس ہے، یہ تو نہایت پریشان کن ہے۔
تاہم زیک ہومز نے بتایا کہ معاہدے کے بعد سارا منصوبہ تبدیل ہو گیا تھا، لیور پول کونسل کی شرط تھی کہ لاٹ کو ایک منسلک رہائش ہونا چاہیے، کنسٹرکشن کمپنی نے کہا کہ آریال کے پاس پیچھے ہٹنے کے کئی مواقع تھے، انھیں آدھے ڈوپلیکس کا پلان بھی بھیجا گیا لیکن انھوں نے اسے پڑھا ہی نہیں اور سیدھا بینک بھیج دیا۔
یہ تکلیف دہ کہانی یہیں تک ہی محدود نہیں، اس گھر میں ابھی فی الوقت آریال اپنی فیملی کے ساتھ قبضے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر رہ رہے ہیں، کیوں کہ کرونا وبا کے دوران ان کے پاس رہائش کے لیے جگہ میسر نہیں تھی، اس لیے مجبوراً وہ یہاں منتقل ہوئے۔ دوسری طرف کنسٹرکشن کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن لیورپول کونسل اور سرٹیفائیر چاہتے ہیں کہ پہلے بقیہ آدھا حصہ مکمل کیا جائے۔