غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں جاری مذاکرات کے دوران حماس کو ملنے والی 34 یرغمالیوں کی فہرست معمہ بن گئی ہے، اسرائیل نے کوئی فہرست دینے کی تردید کر دی ہے، جس پر حماس نے روئٹرز کو ثبوت فراہم کر دیا ہے۔
حماس نے روئٹرز کو ان 34 یرغمالیوں کی فہرست فراہم کی ہے، جنھیں تنظیم نے رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم نیتن یاہو کے دفتر نے روئٹرز کی اس رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کی گئی 34 اسیروں کی فہرست کی منظوری دے دی۔
اس سے قبل اتوار کی سہ پہر کو ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ابھی تک حماس نے یرغمالیوں کی فہرست نہیں دی ہے۔‘‘
روئٹرز اب رپورٹ کر رہا ہے کہ حماس کے ایک اہلکار نے ایجنسی کو اس فہرست کی ایک کاپی فراہم کی ہے، جس میں 34 یرغمالیوں کے نام دکھائے گئے ہیں، جو فلسطینی گروپ نے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا کرنے ہیں۔
ادھر حماس کے ایک اہلکار نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں ایک ہفتے کے سکون (یعنی جنگ بندی) کی ضرورت ہے، جس میں وہ یہ طے کر سکیں گے کہ کون سے اسرائیلی قیدی زندہ ہیں۔
حماس اسرائیل معاہدے میں کن باتوں پر اتفاق ہوا ہے؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ حماس کے ایک اہلکار نے ایجنسی کو بتایا کہ گروپ نے ’’قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے طور پر اسرائیل کی طرف سے پیش کی گئی فہرست سے 34 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘‘
گمنام حماس اہلکار نے بتایا کہ ابتدائی تبادلے میں وہ تمام خواتین، بچے، بوڑھے اور بیمار اسیران شامل ہوں گے جو غزہ میں ابھی تک قید ہیں، تاہم حماس کو ان یرغمالیوں کی حالت کا تعین کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
اہلکار نے کہا حماس نے 34 قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، تاہم، انھیں ایک ہفتے کے ’سکون‘ کی ضرورت ہے جس میں وہ یرغمالیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں سے بات چیت اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی شناخت کر پائیں گے۔