فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت شروع ہوگئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد 19 جنوری کو نافذ ہوا تھا۔ جنگ بندی معاہدے کا مقصد جنگ روکنا، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے۔
معاہدے کے دوسرے مرحلے کا مقصد باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے اپنے بیان میں بتایا کہ سیز فائر کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے پر بات چیت کیلیے اعلیٰ سطحی وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
نیتن یاہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں جس میں ممکنہ طور پر غزہ جنگ بندی کے ساتھ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان چھ ہفتے کی جنگ بندی مصر اور قطر کی ثالیثی اور امریکی حمایت سے ممکن ہوئی۔
فریقین میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل پر سرپرائز حملہ کیا جس میں اس کے 1200 شہری مارے گئے اور 250 کو یرغمال بنایا گیا۔ اسرائیل نے اندھا دھند جوابی حملوں میں 47 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا۔
اسرائیل نے غزہ میں حماس اور معصوم فلسطینیوں پر طرح طرح کے ہتھیاروں سے حملے کیے اور مزاحمتی تنظیم کی کمر توڑ دینے کا دعویٰ کیا لیکن یرغمالیوں اور فلسطینیوں کی رہائی کے دوران حماس کو ایک بار پھر منظم اور پہلے سے زیادہ فعال دیکھ کر دنیا کے ہوش اڑ گئے۔
عبداللطیف القانوع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پہلے مرحلے میں رکاوٹ ڈالی جس سے اسپتالوں، سڑکوں، پانی کے کنوؤں اور 15 ماہ کے حملے سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی مرمت کا کام متاثر ہوا۔
ادھر، اسرائیل کے نائب وزیر خارجہ شیرین ہاسکل نے بتایا کہ حماس نے طے شدہ بہت سے قوانین کو توڑا ہے لیکن ہم پُرامید ہیں اور ہم اپنے خاندان کے تمام افراد کو واپس لانا چاہتے ہیں۔