تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا، وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر اس کے ہونٹوں پہ ایسی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جیسی ایک جنگی سپاہی کے ہونٹوں پہ دشمن پر غالب آنے کے بعد پھیل جایا کرتی ہے۔
خانو کا چہرہ خون میں لال پیلا ہو چکا تھا، پھر بھی فتح یابی سے چہک رہا تھا اور ایسی ہی خوشی خانو کے زخمی ساتھیوں کے چہروں سے بھی عیاں تھیں جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں۔
خانو نے پرانی کرسی کو ہوشیاری کے ساتھ آہستہ آہستہ سے گھسیٹتے ہوئے لکڑی کی الماری کے ساتھ لگا دیا اور پھر اچھل کر کرسی پہ کھڑا ہو گیا مگر الماری کا اوپر والا خانہ اب بھی اس کی پہنچ سے دور ہی تھا جس تک پہنچنے کے لیے بازو کا استعمال کرتے ہوئے جیسے ہی دایاں ہاتھ اوپر والے خانے کے اندر ادھر ادھر گھمایا تو ایک طرف اندر کونے میں رکھا ہوا پیالہ خانو کے چھوٹے سے ہاتھ کی ہتھیلی کی گرفت میں آگیا جسے وہ انگلیوں کی مدد سے رینگتا ہوا اپنے قریب لانے میں بھی کام یاب تو ہو گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے ڈر اور خوف کی وجہ سے جھٹ سے پیالہ وہیں الٹ کر گر گیا اور دو دو آنے والے سکے کوٹھی کے اندر پھیل گئے۔
پل بھر کے لیے خانو کا ننھا وجود ایک انجانے خوف سے کانپ اٹھا اور وہ اپنی جگہ ایسے کھڑا رہا جیسے وہاں سالوں سے لکڑی کی الماری کھڑی ہوئی تھی اس کے بعد جب ہر طرف سے اطمینان ہو گیا تو وہ کرسی سے نیچے اترا۔ زمین پہ بکھرے ہوئے سکے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں جن کو ایک ایک کر کے وہ گنتا گیا تو اس کے ہاتھوں کی دونوں مٹھیاں بھر آئیں۔ کچھ دیر تک چمکتی ہوئی آنکھوں سے سکوں کو دیکھتا رہا پھر دوبارہ کرسی پہ چڑھ کر احتیاط کے ساتھ انہیں پیالے میں واپس رکھ کر اسے اپنی جگہ پہ پہنچایا اور کوٹھی سے باہر نکل آیا تو اس کے کانوں تک صحن کے ایک کونے سے کپڑے دھونے اور کوٹنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ صحن میں کوئی چیز تلاش کرتا ہوا وہ باورچی خانے میں گیا اور دیوار پہ اٹکی لکڑی کی تختی کو جیسے ہی مضبوط کر کے پکڑا اسی لمحے کچھ برتن ٹن ٹن …. ٹن کی آوازیں کرتے نیچے آگرے۔
‘‘کون ہے …..ارے کون ہے وہاں’’ غسل خانے سے کپڑے دھونے کا شور تھم گیا اور نئی آواز پہ ماں نے وہیں سے چلّا کر پوچھا مگر خانو نے کوئی جواب دیے بغیر آہستہ سے برتن اٹھا کر اپنی جگہ پہ رکھ دیے اور تیزی سے نکل کر دوبارہ کوٹھی میں آگیا تو پیچھے سے کپڑے دھونے کی آواز پھر سے شروع ہو گئی۔ وہ دوبارہ پہلے والے انداز میں کرسی پہ چڑھا۔ سکون کے ساتھ رکھے ہوئے پیالے کو دیکھ کر جیسے نیچے اتر آیا تو اس کے کانوں میں یہ الفاظ گونج اٹھے تھے۔
‘‘خانو! چور ہے !….. ہاں ہاں چور ہے ….. چور ہے!’’
‘‘نہیں! خانو چور نہیں ہے۔’’ اپنے آپ سے بولتا ہوا وہ جذباتی انداز میں پھر کرسی پہ چڑھ گیا اور جو دو آنے اس نے لیے ہوئے تھے وہ پیالے میں ڈال کر کرسی کو اپنی جگہ لے آیا اور باہر صحن میں آکر گھر کے صدر دروازے سے نکل گیا۔ خانو جب اسکول پہنچا تو رسیس ختم ہو چکی تھی اور ماسٹر جی جماعت کو بورڈ پہ حساب لکھوا رہے تھے۔ وہ ڈرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ کلاس میں داخل ہونے لگا تو اس کے جماعت کے لڑکوں نے آپس میں سرگوشیاں کرنا شروع کر دیں۔ پیچھے سے شور آہستہ سے بڑھنے لگا تو ماسڑ جی نے پیچھے کی طرف شوخی سے دیکھا اور کہنے لگا۔
‘‘ کس بات پہ مستی ہو رہی ہے؟ ’’
‘‘ ماسٹر جی ! وہ….وہ خانو!’’ اتنا ہی بول سکا تھا۔
‘‘ خانو! کیا؟…. بتاؤ کیا ہوا ہے خانو کو؟!!۔’’
‘‘نہیں نہیں ماسڑ جی! خانو چور نہیں ہے۔’’ خوف اور ڈر سے بے ساختہ بول بیٹھا تو پہلے خانو پہ بہت حیرانگی ہونے لگی …. پھر غصے کی حالت میں ہاتھ میں ڈنڈی گھماتے ہوئے خانو سے مخاطب ہونے لگا۔
‘‘اے لڑکے ! تمہیں یہ کیسا مذاق سوجھا ہے …. ہاں ! چل جلدی جلدی بتا ورنہ ….. !’’
‘‘ ماسڑ جی! قرآن کی قسم سچی کہہ رہا ہوں خانو چور نہیں ہے!’’
خانو ابھی تک بوکھلایا ہوا تھا اور خانو کی بات پر پوری جماعت ٹہہ …..ٹہہ کرتے ہنسنے لگی تو شور اور بڑھتا گیا جس پہ ماسٹر جی کا غُصّہ چڑھنے لگا۔
‘‘خاموش !’’ ماسٹر جی نے اپنی رعب دار آواز نکالتے ڈنڈی کو زور سے میز پہ دے مارا تو سب سہم کر رہ گئے۔
‘‘اب اگر کسی نے کوئی مستی دکھائی تو اس نالائق کی ہڈی پسلی توڑ کے رکھ دوں گا ’’….
جب سب خاموش ہو گئے تو ماسٹر صاحب پھر سے اپنے کام میں لگ گئے مگر سارا وقت خانو جماعت میں یوں بیٹھا تھا جیسے وہاں موجود نہ ہو۔ جب چھٹی کی بیل بجی…. جماعت کے لڑکے اپنی اپنی کتابیں سنبھالے کلاس سے باہر آئے …. اسے کسی بات کا کوئی ہوش نہ رہا تھا اور جب ہوش آیا تو پیرو رعب دار آواز کے ساتھ سامنے تھا۔
‘‘جلدی باہر چلو رے خانو چورا’’ اپنے سامنے کھڑے پیرو کو یوں مذاق اڑاتے دیکھ کر وہ بھی بول اٹھا۔
‘‘ دیکھو پیرو! خانو چور نہیں ہے…. اور نہ ہی کوئی چوری کرتا ہے۔ ’’
‘‘ اچھا !تو پھر کیا کرتا ہے ( پیرو زور سے ہنستے ہوئے ) چور تو چوری کرے گا نا…. چل جلدی سے میرے دو آنے دے….صبح تم نے وعدہ کیا تھا اب اسے پورا کر۔ ’’
‘‘ تمہیں روز ایک آنہ دے کر میں تنگ آچکا ہو ں اور اب تم دو آنے کا تقاضا کرتے ہو…. کوئی آنہ دو آنہ نہیں ملے گا سمجھے ….!’’
‘‘ یہ بات ہے…. ٹھیک ہے پھر تیار ہو جا بچو!’’ پیرو اپنے ساتھیوں کو آوازیں دے کر پکارنے لگا۔
‘‘ ارے اور وشو ….. گلو …. کہاں ہو…. آؤ جلدی آجاؤ!’’
خانو بھی دیکھنے لگا کہ پیرو اپنے دوسرے بدمعاش ساتھیوں کو بلانے لگا تھا۔ اسکول میں بھی کوئی نہیں رہا تھا سب کے سب جا چکے تھے۔ اپنے سامنے مشکل دیکھتے ہوئے اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری تھی۔
‘‘ چلو اب جلدی سے دے دو، دو آنے ؟ ’’ پیرو نے شوخی کے لہجے کے ساتھ خانو کو دھمکایا۔
‘‘ نہیں دوں گا …. کوئی دادا گیری ہے کیا؟ ’’
‘‘ہا ں سمجھو کہ دادا گیری ہے’’ یہ کہتے ہوئے پیرو نے خانو کے دائیں گال پر ایک زور سے گھونسہ مارا اور ساتھ ہی کہنے لگا، ‘‘اب زندہ نہیں بچو گے بچو!’’ خانو لڑکھڑا کر گر پڑا …..گرتا بھی کیسے نہ اپنے وجود میں وہ ایک کمزور سا انسان تھا جو شروع سے ہی ڈرا سہما ہوا رہتا آیا تھا اور جماعت میں اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے پیرو جیسے اوباش لڑکے اسے ڈرا دھمکا کر روزانہ ایک آنہ بطور بھتا وصول کر کے مزے سے چیزیں کھایا کرتے تھے۔
‘‘خانو نے جیسے ہی خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تو پھر سے پیرو نے ایسے زور سے دھکا مارا کہ وہ جا کے دیوار سے ٹکرایا جہاں لوہے کا ٹکڑا لگا ہوا تھا جس سے خانو کا سر پھٹ گیا اور وہ خون میں لت پت ہونے لگا۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی۔
‘‘دو آنے تو کیا ایک ٹکا بھی نہیں ملے گا…..ہاں ہاں ! نہیں ملے گا بچو!….خانو چور نہیں ہے۔ ’’
کہنے اور دیکھنے میں پیرو اور اس کے ساتھی خانو کے مدمقابل ہٹے کٹے تندرست صحت کے مالک تھے، پَر تھے تو وہ بھی آخر کا بچّے ہی۔ جب ان سب نے خانو کو خون میں لت پت ہوتے دیکھا تو ایک دم گھبرا کر وہاں سے بھاگ نکلے جن کے پیچھے ٹھوکریں کھاتا ہوا خانو بھی آنے لگا۔ اس کی نظریں جماعت کے کچھ دوسرے ساتھیوں پڑیں۔ اس کی جان میں جان آگئی۔ تب خانو نے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے اپنی آواز کو فضا میں بلند کیا۔
‘‘ او علن ….. شمن …. نورا…. رحیمو! سب جلدی آؤ اور سنو آج سے کوئی بھی پیرو اور اس کے بدمعاشوں کو کوئی ایک آنہ نہیں دے گا …. سمجھ گئے نا۔ اب کوئی کچھ بھی نہیں دے گا۔’’
لاتیں چلاتے وہ گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے دوڑ کر سہارا دیا۔ خانو اپنے درد سے بے فکر ہو کر خود کو چھڑاتے ہوئے چیخنے لگا۔‘‘ وہ دیکھو! جا رہا ہے پیرو اپنے غنڈوں کے ساتھ …. اسے پکڑ لو…. جاؤ ہمت کرو آج وہ سب بچ کے جانے نہ پائیں۔’’
تب سب کے سب بجلی کی تیزی سے دوڑ کر پیرو اور اس کے ساتھیوں کے راستے میں دیوار بن گئے۔ ادھر پیرو والے بھی ان سب کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ خانو بھی گرتا، سنبھلتا ہوا وہاں آپہنچا تھا جس کی کڑکتی آواز نے علن، شمن، نورا، اور رحیمو کو اک نئی ڈھارس باندھی تھی۔
‘‘میں کہتا ہوں کوئی بھی آنہ دو آنہ نہیں دے گا….یہ ہی موقع ہے ساتھیو پکڑ لو ان حرامیوں کو اور ایسا مزا چکھاؤ کہ زندگی بھر یاد رکھیں….’’
ایک بار پھر خانو کے ساتھی اسے خون میں سسکتے کانپتے …. لزرتے ہوئے دیکھنے لگے جن سب کی آنکھوں میں بھی اب خون اتر آیا تھا اور اندر ہی اندر سے کمزور وجود طاقتور پہاڑ بن گئے تھے….. بس! پھر ایک طوفان سا بر پا ہوگیا۔ سب کے سب قہر خدائی بن کر پیرو اور اس کے ساتھیوں پہ ٹوٹ پڑے جن کے ساتھ گھایل خانو بھی آملا تھا۔ خانو کی حق گوئی اور مرد مجاہد نے سب کو ایسا غازی بنا دیا کہ وہ پیرو والوں کو روندتے، پیٹتے ایک ہی صدا میں ساتھ کہتے جارہے تھے۔
‘‘ آج سے کوئی آنہ دو آنہ نہیں دے گا…. کوئی چوری بھی نہیں کرے گا…. ہاں ہاں کوئی بھی چور نہیں ہے۔ ’’ بہت دیر تک پیرو اور اس کے اوباش ساتھی ایسے پٹتے رہے جیسے گھاٹ پر دھوبی کپڑے زور سے پیٹتے صاف کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کو اگر آج بھاگنے کا موقع نہ ملتا تو یہ یقین ہو چلا تھا کہ سب کے سب خانو اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں جان سے مارے جاتے….
تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں۔
(حمید سندھی کا افسانہ، مترجم جہانگیر عباسی)