الہ آباد کا سینٹرل جیل نینی میں ہے، جہاں جانے کے لیے الہ آباد سے آگے جنی جنکشن پر اترنا ہوتا ہے۔
ہم لوگ صبح کو وہاں پہنچ کر آٹھ بجے کے قریب سینٹرل جیل میں داخل ہوئے، علی گڑھ جیل کے کپڑے اتار لیے گئے اور کہا گیا کہ یہاں کے کپڑے کچھ دیر میں ملیں گے، اس وقت تک کالے کپڑے پہنو، جن کی کیفیت یہ تھی کہ ان سے زیادہ کثیف غلیظ اور بدبو دار کپڑوں کا تصور انسانی ذہن میں نہیں آسکتا، لیکن قہر درویش بر جانِ درویش وہی کپڑے پہننا پڑے۔ راقم حروف کی نگاہ دور بین نہیں ہے، اس لیے پڑھنے لکھے اوقات کو چھوڑ کر باقی ہر وقت عینک کی ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ علی گڑھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بعد معائنہ عینک لگائے رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن الہ آباد والوں نے اس کو کسی طرح گوارا نہ کیا اور عینک کو داخل دفتر کر کے راقم کی بے دست و پائی کو ایک درجہ اور بڑھا دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد جیلر صاحب نازل ہوئے اور میرے ساتھ کے تمام اخباروں اور کاغذوں کو اپنے سامنے جلوا کر خاکستر کر دیا اور دفتر میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ دفتر میں مجھ کو غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہو گے، تو بیمار بنا کر اسپتال بھیجے جاؤ گے اور وہاں مار کر خاک کر دیے جاؤ گے۔ اس خطابِ پُرعتاب کا خاموشی کے سوا اور جواب ہی کیا ہو سکتا تھا۔ جیلر صاحب نے غالباً یہ تقریر محض دھمکانے کی نیت سے کی ہو گی، کیوں کہ بعد میں ان سے مجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیدیوں کی نسبت جیل خانے میں یہ مشہور مثل بالکل صحیح ہے کہ ”مر جائیں تو مکھی اور نکل جائیں تو شیر!“ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قیدی جیل میں مر جائے، تو وہاں اس واقعے کی اہمیت ایک مکھی کے مر جانے سے زیادہ نہ سمجھی جائے گی، لیکن اگر کوئی قیدی وہاں سے نکل بھاگنے میں کام یاب ہو جائے، تو یہ واقعہ اس قدر اہم شمار کیا جائے گا کہ جتنا ایک شیر کا کٹہرے سے نکل جانا!
( ”مشاہدات زنداں“ از مولانا حسرت موہانی سے لیا گیا)