بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

اشتہار

حیرت انگیز

یہ تذکرہ ہے حسرتؔ موہانی کا جن کی فکر اور فن کی کئی جہات ہیں اور ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں بلکہ مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ حسرتؔ موہانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 13 مئی 1951ء کو حسرتؔ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

چھوٹا سا قد، لاغر بدن، گندمی رنگت پر چیچک کے داغ، چہرہ پر داڑھی، سر پر کلا بتونی ٹوپی، پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا، تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ یہ حسرتؔ کا حلیہ تھا جو ادبی محافل اور سیاسی اجتماعات میں نظر آتے تھے۔ حسرتؔ ایک محقّق، نقّاد اور تذکرہ نگار بھی تھے۔

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

- Advertisement -

جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

حسرتؔ کے یہ اشعار دیکھیے اور اردو کے ممتاز شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کی حسرت کے کلام پر ایک مضمون سے چند سطور پڑھیے؛ "معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فن کار (Born Master) کا ہے۔ یہ شاعری قدرِ اوّل سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اوّل کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہلِ لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔”

ترقّی پسند تحریک کے سرداروں میں شامل سیّد سجّاد ظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں حسرتؔ کا ذکر یوں کیا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلّف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیں گے، سچّی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، تو وہ حسرتؔ موہانی کی ہستی تھی۔‘‘

حسرتؔ کے والد کا نام سیّد ازہر حسن اور والدہ شہر بانو تھیں۔ حسرتؔ کی پیدایش کے سال میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن بیش تر تذکرہ نویسوں‌ نے جنوری 1880ء اور وطن موہان بتایا ہے۔ اُن کا نام سیّد فضل الحسن رکھا گیا۔ خوش حال گھر کے فرد تھے جس کی فضا عمومی طور پر مذہبی تھی اور حسرتؔ بھی ابتدا ہی سے نماز روزہ اور دیگر دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگے تھے۔ حسرتؔ کی والدہ اور نانی دونوں ہی فارسی اور اُردو پر نہ صرف قدرت رکھتی تھیں بلکہ شعری و ادبی ذوق بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔ چوں کہ ان دو خواتین کی زیرِ تربیت حسرتؔ کا ابتدائی وقت گزرا، لہٰذا اُن میں بھی شعر و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ طبیعت میں ذہانت اور شوخی بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اُس زمانے کے رواج کے عین مطابق حسرتؔ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا۔ قابل اساتذہ نصاب کے مطابق عربی، فارسی درسیات اور اُردو اسباق کے لیے گھر آ کر تعلیم دیا کرتے۔ ان کی تعلیم اور صحبت کا اثر یہ ہوا کہ حسرتؔ کو نو عمری ہی سے فروعِ دین کا شوق پیدا ہوگیا۔ قرآنِ پاک کی تکمیل کر لی اور پھر فتح پور، ہسوہ کے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ حسرتؔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے بہرہ وَر ہونے لگے۔ مڈل کے امتحان میں حسرتؔ نے اوّل درجے میں کام یابی حاصل کی اور ان کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ چوں کہ اُس وقت موہان میں مڈل سے آگے کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا، لہٰذا حسرتؔ کو 1893ء میں میٹرک کی تعلیم کے لیے فتح پور بھیجا گیا۔ فتح پور میں حسرتؔ نے کم و بیش پانچ برس گزارے۔ اس دوران قابل اساتذہ اور ادبی شخصیات سے اُن کا میل جول رہا اور حسرت نے جو شاعری شروع کرچکے تھے، ان کی صحبت سے خوب فیض اٹھایا۔ 1899ء میں حسرتؔ گورنمنٹ ہائی اسکول، فتح پور سے عربی، فارسی، اُردو اور ریاضی میں امتیازی شان کے ساتھ درجۂ اوّل میں کام یاب ہوئے اور ایک بار پھر سرکاری وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ حسرتؔ کی کام یابی کی یہ خبر گزٹ میں شایع ہوئی۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی شادی بھی انجام پا گئی۔ بیوی سمجھ دار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی کے بعد حسرتؔ علی گڑھ چلے گئے جہاں صحبتوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سیّد سجّاد حیدر یلدرمؔ اور مولانا شوکت علی سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا۔ 1901ء میں حسرتؔ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی اور دو سال بعد ایک ادبی رسالہ، ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ جاری کیا جس میں ان کی اہلیہ نے اُن کا ہاتھ بٹایا اور اسی زمانے میں حسرتؔ جو عملی سیاست میں یک گونہ دل چسپی محسوس کرنے لگے تھے کالج کی سطح پر طلباء سرگرمیاں انجام دینے لگے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کو لے کر مطالبات اور احتجاج میں اتنا آگے چلے گئے کہ کالج انتظامیہ نے ان کو تین بار ہاسٹل سے نکالا۔ ان کی سرگرمیاں انھیں کسی انقلابی تبدیلی کا خواہاں ظاہر کرتی تھیں۔ اسی اثنا میں حسرت نے گریجویشن کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ 1904ء میں حسرتؔ نے پہلی بار کانگریس کے کسی اجلاس میں شرکت کی اور یوں باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کا سفر شروع ہوا۔ حسرتؔ نے اسی زمانے میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام کے باوجود اس جماعت کا ساتھ نہ دیا۔ یہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کا معاملہ تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی حسرتؔ نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ ادھر ان کے رسالے میں ایک مضمون میں‌ انگریز حکومت کی حکمتِ عملی پر جارحانہ انداز میں تنقید کے بعد حسرتؔ کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر غدّاری کا مقدّمہ بن گیا۔ حکومت نے کتب خانہ اور پریس ضبط کر لیا۔ مقدّمہ چلا اور حسرت کو دو برس قید اور جرمانہ 500 روپے کیا گیا۔

1909ء میں حسرتؔ نے ایک بار پھر ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ کا اجراء کرنا چاہا، مگر کوئی پریس رسالہ چھاپنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا تھا۔ تب انھوں نے خود اس کام کا آغاز کیا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر پریس کے سارے کام خود کرنے لگے۔ ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ اپنی روش پر گام زن رہا۔ مگر ایک اور موقع وہ آیا کہ رسالہ پھر عتاب کا شکار ہو گیا۔ حسرتؔ نے ہمّت ہارنے کے بجائے عجب قدم اٹھایا۔ وہ دکان کھول کر بیٹھ گئے جہاں علاوہ سودیشی کپڑوں کے دیگر اشیاء بھی موجود ہوتیں۔

حسرتؔ کا سیاسی نظریہ بہت واضح تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ 1913ء ہی میں ’’مسجدِ کانپور‘‘ کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں بہت سی جانیں ضایع ہوئیں۔ اسی پر ایک تحریک چلی، اور اس تحریک کے راہ نماؤں میں حسرتؔ بھی شامل تھے۔1916ء میں حکومت نے جوہرؔ اور ابوالکلام آزاد کو حراست میں لیا، تو حسرتؔ میدان میں نکلے، مگر ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت حسرتؔ کی شہرت سے خائف بھی تھی اور یہ بھی سمجھتی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دونوں کا حسرتؔ کو یکساں قدر کی نگاہ سے دیکھنا، خطرے سے کم نہیں۔ بالآخر مئی 1918ء میں حسرتؔ کی سزا کی مدّت پوری ہوئی اور وہ رہا کیے گئے۔ 1919ء میں’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا۔ حسرتؔ کا برطانوی حکومت کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کا سلسلہ جلسے، جلوس، کانگریس اور مسلم لیگ سے اتفاق اور اختلاف کے ساتھ جاری تھا کہ 1922ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور اس کا سبب کانگریس کی خلافت کانفرنس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں باغیانہ تقاریر تھیں۔ انھیں قیدِ بامشقّت سنائی گئی۔ دو سال بعد رہائی ملی اور 1925ء میں‌ سال کے آخر میں کانپور میں ’’آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی پشت پر حسرتؔ موجود تھے۔ اب انھوں نے خود کو ’’مسلم اشتراکی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اس سیاسی سفر کے علاوہ 1936ء میں ’’انجمنِ ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حسرتؔ نے لکھنؤ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں حسرتؔ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور پھر خاندان کی ایک بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد مغربی ممالک کے دورے پر گئے۔ وہاں برطانوی سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، ہاؤس آف کامنز کے جلسے میں تقریر کی اور وہاں ہندوستانیوں کی آواز بنے رہے۔ یہاں‌ تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور حسرتؔ نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔ 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری اور تیرہواں حج ادا کرنے والے حسرت بیماری کے سبب اگلے سال انتقال کرگئے۔

حسرتؔ کی تصنیفات و تالیفات میں ’’متروکاتِ سُخن‘‘، ’’معائبِ سخن‘‘، ’’محاسنِ سخن‘‘، ’’نوادرِ سخن‘‘،’’نکاتِ سخن‘‘،’’دیوانِ غالبؔ(اردو) مع شرح‘‘، ’’کلّیاتِ حسرتؔ‘‘، ’’قیدِ فرنگ‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ اور کئی مضامین شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں