آج اردو کے ترقّی پسند شاعر، ادیب اور صحافی حسن عابدی کی برسی ہے۔ وہ 2005ء میں وفات پاگئے تھے۔ حسن عابدی کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔
حسن عابدی کا اصل نام سیّد حسن عسکری تھا۔ وہ 7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ اور الہ آباد کے تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کرنے والے حسن عابدی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آگئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوئے۔ حسن عابدی نے لاہور ہی میں 1955 میں روزنامہ آفاق سے وابستگی اختیار کرکے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا اسی زمانے میں شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کے زیرِ ادارت جریدہ لیل و نہار شایع ہوتا تھا اور حسن عابدی کو بھی اس سے منسلک ہونے کا موقع ملا۔ اس دوران انھیں کئی نام ور ادیبوں، شعراء اور اہلِ قلم کی صحبت میسر آئی اور حسن عابدی کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔ وہ کراچی منتقل ہوئے یہاں بھی صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہا اور کالم نگاری کا مشغلہ اپنایا۔
اردو زبان و ادب سے متعلق حسن عابدی کے مضامین اور تراجم کو بھی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور ان کے کالم بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔ حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشتِ نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ اردو ادب میں آپ بیتی اور تذکرے و یادداشتیں بھی مقبول رہی ہیں اور خاص طور پر وہ شخصیات جنھوں نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہو، ان کے پاس کئی اہم اور دل چسپ واقعات، مختلف شخصیات کے تذکرے اور بہت سے قصائص ضرور ہوتے ہیں، اور حسن عابدی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے طویل عرصہ اس دشت کی سیاحی میں گزارا تھا اور مشاہیر سے ان کی رفاقت رہی تھی۔ سو، جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی حسن عابدی نے رقم کیں۔ حسن عابدی نے ایک کتاب بھارت کا بحران کے عنوان سے ترجمہ بھی کیا تھا۔
حسن عابدی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور کئی کہانیاں اور نظمیں ان کے قلم سے نکلیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب شریر کہیں کے بھی شایع ہوئی اور ان کی کہانیاں بھی کتابی شکل میں اکٹھی کی گئیں۔ صحافت کے موضوع پر ان کی ایک نہایت عمدہ کتاب اردو جرنلزم کے عنوان سے شایع ہوئی جو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں اور تمام صحافیوں کی راہ نمائی کرتی ہے ار بالخصوص طلباء کے فہم کے پیشِ نظر فاضل مصنّف نے اس میں سادہ اور آسان زبان میں صحافت کی باریکیوں اور مسائل پر لکھا ہے۔
اس زمانے میں جب پاکستان میں ترقی پسند ادب سے وابستہ قلم کاروں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں۔ حسن عابدی کو بھی اپنے نظریات کی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ جیل گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں حسن عابدی روزنامہ ڈان سے منسلک تھے۔
یہاں ہم حسن عابدی کی غزل سے دو اشعار نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں