اردو کے ممتاز نقاد، بہترین مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی سادگی، اپنے شہر سے ان کی الفت اور تہذیب و ثقافت سے لگاؤ کا یہ قصّہ دل چسپ بھی ہے اور ایک بڑے آدمی کی شخصیت کا وہ پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے، جس سے عام طور پر قاری واقف نہیں ہوتے۔ محمد حسن عسکری اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے اردو ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔
حسن عسکری کے درویش صفت اور سیدھے سادے انسان ہونے کا احوال سنانے والے بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ اور وہ ہیں ڈاکٹر عبادت بریلوی جنھیں اردو کا صفِ اوّل کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقدمہ میں اس کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ جن دنوں عسکری صاحب کو روزگار کی شدید ضرورت تھی اور بریلوی صاحب نے کچھ کوشش کر کے انھیں اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں انگریزی زبان کے لیکچرر کے طور پر ایک اسامی کے لیے روانہ کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ روانگی کے بعد تیسرے روز ہی حسن عسکری صاحب سے عربک کالج، دہلی میں ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:
”عسکری صاحب کہنے لگے: صاحب! آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا تھا۔ میں اعظم گڑھ تک نہ پہنچ سکا۔ درمیان سے واپس آ گیا۔“ میں نے کہا وہ کیسے؟
کہنے لگے: میں اعظم گڑھ کے اسٹیشن پر اترا۔ ویران سا اسٹیشن تھا۔ باہر نکل کر میں نے ایک تانگے والے سے کہا کہ میاں! شبلی کالج پہنچا دو۔ وہ تیار ہو گیا۔ میں اس کے تانگے میں سامان رکھ کر بیٹھ گیا۔ اجاڑ سی سڑک پر تانگہ چلنے لگا۔
کچھ دور اور آگے گیا تو سڑک کچھ اور بھی ویران نظر آنے لگی۔ اس سڑک پر تو بجلی کے کھمبے تک نہیں تھے۔ میونسپلٹی لالٹین لگی تھیں، گاؤں کا سا ماحول معلوم ہوتا تھا۔ لوگ عجیب سے پوربی لہجے میں اردو بول رہے تھے۔ اس ماحول کو دیکھ کر میری طبیعت گھبرا گئی اور اختلاج سا ہونے لگا۔ چناں چہ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس ویران جگہ میں نہیں رہ سکوں گا۔ اس لیے میں نے تانگے والے سے کہا میاں! اسٹیشن واپس چلو، میں شبلی کالج نہیں جاؤں گا۔ میں اس شہر میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔