اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی، دونوں ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔
[bs-quote quote=”فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]
دونوں ریفرنسز میں فریقین کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، آج کی سماعت میں جواب الجواب دلائل پیش کیے گئے جس کے بعد ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔
سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یو کے لینڈ رجسٹری سے دستاویزات مل گئیں، تصدیق بھی کروا لی گئی ہے۔
لینڈ رجسٹری سے موصول شدہ اضافی دستاویزات عدالت میں جمع کروا دی گئیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے تسلیم نہیں کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ لی، کیپٹل ایف زیڈ ای میں نواز شریف کا عہدہ اعزازی تھا۔ سپریم کورٹ نے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت صرف ویزا مقاصد کے لیے تھی۔ جج نے دریافت کیا کہ تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لوں تو کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ تعلق یہ بنتا ہے نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا۔ 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر 5 ججوں نے دستخط کیے۔ 28 جولائی کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے آج کچھ دستاویزات پیش کیں، اس کا مطلب ہے تمام دستاویزات ان کی دسترس میں تھیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر وہ دستاویزات پیش نہیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے تفتیش ہوچکی تھی، جے آئی ٹی کسی کرائم کی تفتیش کے لیے نہیں بنی تھی۔ نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواستوں پر کچھ سوالات اٹھائے گئے۔ جے آئی ٹی صرف ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا
سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کچھ وقت دیا جائے تو وہ دستاویز موصول ہونے پر پیش کردوں گا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مدت سب کے سامنے ہے، اب مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویز برطانیہ میں لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں ملی، کب تک مل سکتی ہے کچھ وقت بتا نہیں سکتا۔ ایک ہفتے کا وقت اگر دیا جائے تو شاید وہ دستاویز آجائے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملزم کی یہ درخواست معاملے کو التوا میں ڈالے گی، حتمی دلائل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔
احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی۔
گزشتہ سماعت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔
ملک اصغر نے کہا تھا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔
انہوں نے کہا کہ تھا جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔
کیس کا پس منظر
سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکل اس وقت شروع ہوئی جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔
پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔
کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔
درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔
بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔