تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت، وفاقی حکومت سے جواب طلب

لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف کا نام ای سی ایل نکالنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔درخواست شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

تفصیلات کے مطابق نوازشریف کانام ای سی ایل سےنکالنےکی درخواست پر جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے2رکنی بینچ نے سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نوازشریف کے بیرون ملک جانے کے لیے حکومت کی جانب سے عائد کردہ 4ہفتےکی پابندی اور سیکیورٹی بانڈجمع کرانے کی شرط کو غیرقانونی قراردیاجائے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نوازشریف کے کچھ ٹیسٹ کرانے کےلیےکہا گیا، میڈیکل بورڈکاکہناہےٹیسٹ ملک سےباہرہو سکتےہیں، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا ، میڈیکل بورڈ نےنواز شریف کی حالت کو تشویشناک قراردیا جب کہ وفاقی حکومت کہتی ہے عدالت نے کچھ پابندیاں عائدکی ہیں، وفاقی حکومت کا عمل سیاسی بنیادوں پر ہےقانونی نہیں لہذا عدالت نام غیرمشروط طورپرای سی ایل سےنکالنےکاحکم دے۔

عدالت نے پوچھا کہ کیامیاں شہبازشریف کانام ای سی ایل میں ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ شہبازشریف کانام کسی اورانکوائری میں ای سی ایل میں ڈالاگیا اور ہائیکورٹ کےحکم پر نام نکالاگیا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر

عدالت نے سوال کیا کہ نیب اسلام آبادمیں معاملہ ہونےپرلاہورہائیکورٹ سماعت کرسکتی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ نیب لاہورمیں چوہدری شوگرملزسمیت انکوائریاں ہوئیں اورہورہی ہیں، لاہورہائیکورٹ اس کیس کی سماعت کر سکتی ہے، معاملہ نوازشریف اورعدالت کے درمیان ہے حکومت کا تعلق نہیں ، حکومت کسی صورت ای سی ایل سےنام نکالنےپرشرائط عائدنہیں کرسکتی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت نے نام ای سی ایل میں ڈالا لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

جس پر عدالت نے پوچھا کہ یہ بتائیں جو حکم جاری کیا گیا وہ کس قانون کے تحت جاری ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب کوئی ملزم پیش نہ ہوتوپھروفاق کو کہا جاتا ہے ملزم کیوں نہیں آیا، مشرف کیس میں بھی ایسا ہی ہوا وفاقی حکومت کوکہا گیاکیوں پیش نہیں کیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ یہ بتائیں نواز شریف کا نام کس نیب بیورو کے کہنے پر ڈالا گیا ؟ حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ابھی دیکھنا ہے کہ کس بیورو کے کہنے پر نام ڈالا گیا، نواز شریف کی ابھی سزا معطل ہوئی ہے بری نہیں ہوئے۔

جس پر وکیل نوازشریف نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزائیں معطل کر کے ضمانت دی، عدالتی حکم کے بعد حکومت کوئی شرط عائدنہیں کر سکتی، ہر شہری پر قانون کے مطابق ہی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، وفاق نے جو حکم جاری کیا اس کا کوئی قانون موجودنہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت کل صبح ساڑھے 10بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

Comments

- Advertisement -