ہندوستان کے معروف فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس کے لیے اپنے فلمی کیریئر کی پہلی ویب سیریز "ہیرا منڈی” بنائی ہے، جس کا ان دنوں پاکستان اور بھارت میں بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس ویب سیریز پر فلم بینوں کے مثبت اور منفی تبصروں کے ساتھ فلمی ناقدین کی جانب سے تنقید بھی ہوئی ہے۔
یہ تحریر آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ اس ویب سیریز کو کس نگاہ سے دیکھیں۔ اردو میں اس ویب سیریز پر پہلا مفصل تبصرہ اور تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔
پس منظر
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بعض شہر اور مقامات ایسے ہیں جن کو ثقافتی حوالے سے بڑی اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک پاکستان کے شہر لاہور کی "ہیرا منڈی” ہے۔ سولہویں صدی میں مغل دور میں، جب جلال الدین اکبر ہندوستان میں تخت پر براجمان تھا، تب اس کی بنیاد پڑی، کیوں کہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ایشیائی ممالک اور ہندوستان بھر سے رقاصاؤں نے یہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے پڑوس ہی میں دربار سے وابستہ ملازمین کی رہائش گاہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ رقاصائیں دربار کی خدمت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ راجوں مہاراجوں کی دل جوئی کا سامان بھی تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو یہ علاقہ غذائی اجناس کی تجارت کے لیے بھی پہچانا جانے لگا۔
بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان طوائفوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم و ستم بھی کیا گیا جس کا اختتام سکھوں کے دور میں ہوا۔ تاہم انگریزوں نے اپنے دور میں پھر ان عورتوں پر ظلم اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا۔ تجارت اور ثقافت کے اس سنگم کو سکھ دور میں اس وقت بامِ عروج پر دیکھا گیا جب رنجیت سنگھ ہندوستان کا حکم راں تھا۔ اس علاقے کو سکھ دور میں ہیرا سنگھ دی منڈی پکارا جاتا تھا، جو اُس دور کے سکھ وزیراعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ سے منسوب تھی۔
اس طرح برٹش راج تک آتے آتے ہیرا منڈی ثقافتی تربیت کا مرکز بننے کے بعد، رقص و موسیقی کا مرکز بنی اور پھر شاہی محلّے میں تبدیل ہونے کے بعد ایک کوٹھے میں تبدیل ہوگئی۔ ان بدلتے ادوار کی تاریخ میں اس خطّے کی پیشہ ور عورت کے کئی نسوانی روپ دکھائی دیں گے، جس کا اختتام ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان پر ہوا۔ لاہور میں واقع آج کی ہیرا منڈی صرف اس تاریخ کے کھنڈر ہیں، جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔
سینما میں بطور موضوع
ہیرا منڈی ایک ایسی جگہ ہے، جس میں تخلیق کاروں کو بطور موضوع ہمیشہ کشش محسوس ہوئی ہے۔ اردو اور ہندی ادب سے لے کر، سینما تک سب نے اپنے اپنے انداز میں اس علاقے، یہاں کی روایات اور ثقافت کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے بھی مذکورہ ویب سیریز کو اپنے تخیل میں تراشا۔ یہ خالصتاً ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ حقیقت میں ہیرا منڈی میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا۔ اس فلم ساز کے ذہن میں جو ہیرا منڈی تھی، وہ ترقی یافتہ لکھنؤ کی ہیرا منڈی ہے، مگر مجھے یہ کہنا پڑ رہا کہ فلم ساز اِس ہیرا منڈی کو اپنے اسکرپٹ میں بھی ڈھنگ سے پیش نہیں کرسکے، جو ان کے تخیل میں تھی۔
یہ سنجے لیلا بھنسالی کا مرغوب موضوع ہے، جس پر وہ مختلف انداز سے طبع آزمائی کرچکے ہیں اور جن میں ان کی فلمیں، ہم دل دے چکے صنم، دیو داس، باجی راؤ مستانی، پدما وت اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی شامل ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کسی آن لائن اسٹریمنگ پورٹل کے لیے یہ کام کیا ہے اور یہ ان کی اوّلین ویب سیریز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی طوالت کو فلم ساز سنبھال نہیں پائے اور ایک اچھی ویب سیریز بنانے کے باوجود ان سے کئی سنگین غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اس کی توقع اُن سے نہ تھی۔ ان غلطیوں کی بنیادی وجہ ویب سیریز کا ناقص اسکرپٹ ہے، جسے ایک اچھے مرکزی خیال پر لکھا گیا ہے۔
اسی موضوع پر ہندوستانی اور پاکستانی سینما میں چند اچھی فلمیں بھی تخلیق کی جا چکی ہیں، جنہوں نے طوائف کے موضوع سے انصاف کیا۔ معروف فلمی محقق ذوالفقار علی زلفی کے بقول "اس موضوع پر پہلی فلم 1928ء کی خاموش فلم ‘وشو موہنی’ ہے۔” انہوں نے اس کے بعد بننے والی فلموں کو بالتّرتیب بیان کیا ہے جن میں 1939ء کی فلم ‘آدمی’ بھی شامل ہے جس کے ہدایت کار وی شانتا رام تھے۔
1944ء میں سہراب مودی کی فلم ‘پرکھ’ خواجہ احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ گرودت کی فلم ‘پیاسا’ اور 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلمیں ‘سادھنا’ اور ‘چاندنی چوک’ کے ہدایت کار بی آر چوپڑا تھے۔ اس کے بعد کی چند مشہور فلموں میں آستھا، چاندنی بار، چنبیلی سمیت دوسری فلموں میں مرزا غالب، مہندی، بے نظیر، میرے حضور، شرافت، آنسو اور مسکان، امراؤ جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، بیگم جان اور دیگر شامل ہیں۔ وکرم سیٹھ کے ناول پر بنی بی بی سی کی ویب سیریز ‘اے سوٹ ایبل بوائے’ بھی قابلِ ذکر تخلیق ہے، جس کی ہدایت کار میرا نائر تھیں۔
‘پاکیزہ’، ‘منڈی’ بھی دو ایسی ہیں فلمیں ہیں، جن کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو ہدایت کار کے آصف کی فلم ‘مغلِ اعظم’ کو بھی اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو بہرحال اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف فلم ہے۔ اسی موضوع کے تناظر میں کچھ اور فلمیں بھی بنیں۔ ان میں طوائف (1985ء) طوائف کی بیٹی (1989ء) پتی پتنی اور طوائف (1990ء) کلنک (2019ء) شامل ہیں۔ پاکستانی سینما میں عطاءُ اللہ ہاشمی کی 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘غالب’ اور دیگر فلموں میں انجمن (1970ء) امراؤ جان ادا (1972ء) پاکیزہ (1979ء) ثریا بھوپالی (1976ء) بازارِ حسن (1988ء) صاحب بی بی اور طوائف (1998ء) ماہ میر (2016ء) اور ٹکسالی گیٹ (2024ء) شامل ہیں۔
سنجے لیلا بھنسالی کی ‘ہیرا منڈی’
کہانی۔ اسکرپٹ
اس کہانی کا مرکزی خیال معین بیگ کی تخلیق ہے، جس پر سنجے لیلا بھنسالی نے اسکرپٹ لکھا اور دیویاندہی اور ویبو پوری نے مکالمے۔ جب کہ اس کہانی کے تخلیقی تسلسل اور اسکرپٹ سے متعلق دیگر شخصیات میں پرشانت کشور جوشی، موہن روات، ویبہو ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ مرکزی خیال کے پیش کار معین بیگ ہندوستان کی ایک ادبی شخصیت ہیں اور ان کی سنجے لیلا بھنسالی سے پرانی راہ و رسم ہے۔ انہوں نے 14 برس پہلے سنجے لیلا بھنسالی کو لاہور کی ہیرا منڈی کے تناظر میں ایک کہانی کا مرکزی خیال سنایا تھا جس پر فلم ساز نے پہلے فلم بنانے کا سوچا، لیکن موضوع کی گہرائی اور کہانی کی انفرادیت نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اسے وقت دیں اور اس پر جم کر کام کیا جائے۔ اس طرح انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی ویب سیریز لکھتے ہوئے اس کی ہدایات دیں اور اس کی موسیقی بھی ترتیب دی۔
سنجے لیلا بھنسالی کے اس اسکرپٹ کا پلاٹ تو بہت مضبوط ہے، جو مرکزی خیال سے پیوست ہے۔ طوائفوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے، ان کے آزادی کی جنگ سے جڑ جانے کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ بس، بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کہانی لکھنؤ کے پس منظر میں سوچی گئی اور ہندوستانی جذبات کے ساتھ فلمائی گئی اور اس کے ماتھے پر زبردستی ‘ہیرا منڈی’ کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔
یہ ہندوستان کے کسی بھی ایسے علاقے کی کہانی ہوسکتی تھی، جہاں طوائفیں رہتی تھیں۔ اس کہانی میں نہ تو کہیں لاہور آیا، نہ کہیں اس علاقے کا کلچر، حتیٰ کہ پنجابی زبان، جو اس شاہی محلّے کا خاصّہ تھی، اس کا سفاکی سے قلع قمع کیا گیا۔ اس کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی سنگین غلطیاں کی گئیں، جس طرح ہیرا منڈی کا تاریخی اور درست نام ‘شاہی محلّہ’ ہے، لیکن ویب سیریز کے اس اسکرپٹ میں اسے ‘شاہی محل’ لکھا اور بولا گیا۔ کوٹھے کی مالکن اور طوائفوں کی برادری کی سربراہ کے لیے لفظ ‘نائیکہ’ مستعمل ہے، جب کہ اس کہانی میں اس عورت کے نام کے ساتھ حضور، حضور کی تکرار کی گئی، جس کا نہ کوئی معنوی تعلق اس کہانی سے بنتا ہے اور نہ ہی تخلیقی۔ یہ ایک مہمل لفظ تھا، جن جن جگہوں پر بھی یہ استعمال ہوا۔
ویب سیریز اور اس کے اسکرپٹ میں لکھی گئی اردو انتہائی ناقص اور غلط العام ہے۔ یہاں تک کہ اردو کا ایک اخبار دکھایا گیا، جس کو ایک معروف طوائف پڑھ رہی ہے، اس اخبار میں کئی جگہ غلط اردو دکھائی دی۔ سڑکوں پر آویزاں پوسٹرز اور احتجاجی جلوس میں شرکا کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بینرز پر درج عبارتوں میں کئی غلط الفاظ اور ہندی رسم الخط دکھائی دیا جو کہانی کے مقام اور علاقے سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا تھا۔ کہانی اور کرداروں کی ترتیب، بُنت اور کلائمکس اچھے تھے، جس کی وجہ سے آٹھ اقساط کی اس سیریز میں دل لگتا ہے۔
اس کہانی میں سوائے قدسیہ بیگم نامی کردار کے، جس کو معروف ہندوستانی اداکارہ فریدہ جلال نے ادا کیا، کسی نے اردو زبان کے تلفظ اور ادائی کا خیال نہیں رکھا۔ فریدہ جلال کے اردو بولنے کا ڈھنگ اور درست تلفظ کی تربیت شاید اس زمانہ میں ہوئی ہو جب وہ دور درشن ٹیلی وژن پر کام کرتی تھیں جہاں درست زبان بولنے پر ایسے ہی زور دیا جاتا ہے، جیسے کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر ہوتا تھا۔ کرداروں کے غلط تلفظ نے اس کہانی کو جا بجا مجروح کیا، البتہ ایک کہانی میں کئی کہانیاں پیش کرنے کی کوشش کامیاب رہی، جن کا مونتاج بنانے میں سنجے لیلا بھنسالی بطور اسکرپٹ رائٹر کامیاب رہے، لیکن اگر انہوں نے طوائف کے موضوع پر اتنی تفصیل میں ہی جانا تھا تو سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا ہی مطالعہ کر لیتے اور کہانی کی نفسیات، تکنیک، کرداروں کی مزید بنت اور زبان و بیان برتنے کا سلیقہ سیکھ سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے، اگر وہ چاہیں تو اس ویب سیریز کا دوسرا سیزن بنانے سے پہلے منٹو سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
ہدایت کاری
یہ ویب سیریز ایک ہدایت کار کے طورپر کامیاب پروجیکٹ ہے۔ اس کے پروڈکشن ڈیزائن سے لے کر تمام شعبہ ہائے تخلیق میں سنجے لیلا بھنسالی کا کام متاثر کن ہے۔ اگر ان کو اچھا اسکرپٹ ملتا تو ڈائریکشن کے تناظر میں جو معمولی غلطیاں ہوئیں، وہ نہ ہوتیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ ڈائریکشن ہے، جس میں خاص طور پر اینی میشن، گرافکس، ویژول ایفکٹس، سیٹ ڈیزائننگ، کاسٹیومز، جیولری، میک اپ، لائٹنگ، ساؤنڈ، فریمز، سینماٹو گرافی اور سب کچھ دلکش ہے۔ ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک مغلیہ پینٹنگز دیکھ رہے ہیں۔ ہر فریم عمدہ اور نگار و نقش پُرسوز اور شان دار ہے۔ اس لیے اگر اسکرپٹ کی تکنیکی غلطیوں کو جن میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں، نظر انداز کر کے ویب سیریز کو دیکھا جائے تو یہ آپ کو ضرور ایک مختلف دنیا میں لے جائے گی، جہاں ہر چیز گویا محوِ رقص ہے۔
- Advertisement -