طرز زندگی میں تبدیلی اور کھانے پینے کی عادات کے باعث پاکستان میں نوجوانوں اور خصوصاً بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا سامنا ہے۔
بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کے اکثر مریض اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب شریانوں سے گزرنے والے خون کا دباؤ مسلسل بہت زیادہ ہو۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض قلب پروفیسر ڈاکٹر انعام دانش نے اس تشویشناک صورتحال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اس سے بچاؤ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر بلڈ پریشر کی شکایت 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہوتی ہے، اور اگر یہ صورتحال 40 سال سے کم عمر میں پیدا ہو تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 1 سال سے 18 سال کے درمیانی عمر میں بھی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوسکتا ہے، لہٰذا والدین اور اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ مختلف اوقات میں بچوں کا باقاعدہ بلڈ پریشر چیک کروائیں۔
وقت کے ساتھ یہ دباؤ بڑھ کر مختلف طبی مسائل جیسے امراض قلب، ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتا ہے، بلڈ پریشر کا مسئلہ بہت عام ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس کے شکار ہیں۔
بچوں میں ہائی بلڈ پریشر سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ایسے بچوں میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہیے کہ وہ عام بچوں کی طرح زیادہ دوڑ نہیں لگا سکتے، ایسے بچے سینے میں تکلیف کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو فوری طور پر معالج سے لازمی رجوع کرنا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر انعام دانش نے بتایا کہ عام طور پر ایک بالغ بچے کا بلڈ پریشر 80 سے 120 سے کم ہونا چاہیے، اس کیلئے 70 سے 110 بہت اچھا نمبر ہے۔
اس کے علاوہ اگر 20 سال کی عمر میں بلڈ پریشر 80 سے 120 ہے تو یہ زیادہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ 20 سے 40 سال کے درمیان ہر 8 میں سے ایک فرد کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے۔
اس کیفیت سے بچاؤ کیلیے ضروری ہے کہ ہر شخص کیلیے ایک ہفتے کے دوران 150 منٹ واک یا ورزش کرنا لازمی ہے، اس دورانیے کو تین یا حصوں میں تقسیم بھی کیا جاسکتا ہے۔