پشاور: چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف عورت مارچ کی منتظمین کی درخواست خارج کر دی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق عورت مارچ منتظمین کی ایف آئی آر اندراج کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ عورت مارچ میں جو کچھ ہوا ایسا تو یورپ کے معاشروں میں بھی نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا عورت مارچ میں شرکا نے ایسے بینرز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جس پر نازیبا الفاظ درج تھے، مارچ میں ایسے نعرے بھی لگائے گئے جو معاشرے کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔
جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ عورت مارچ میں جو کچھ ہوا، اس پر شرکا کے علاوہ تمام لوگ ناراض تھے، کیا یہ سب کچھ بھی آزادی کے زمرے میں آتا ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟ درخواست گزار خاتون کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے مارچ منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر درج ہوئی ہے نہ کوئی اور کارروائی کی گئی ہے، کسی کو ابھی تک گرفتار بھی نہیں کیا گیا، پھر آپ نے کیوں یہاں درخواست دی ہے؟ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ خدشہ ہے کہ منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائی گی اور ان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور نہ کوئی کارروائی ہوئی ہے، صرف مفروضوں پر درخواستیں دائر نہیں ہو سکتیں، جب ایف آئی آر درج ہو جائے تو پھر آپ درخواست دائر کر سکتے ہیں، عدالت نے مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف عورت مارچ منتظمین کی درخواست خارج کر دی۔
یاد رہے کہ 8 مارچ 2021 کو اسلام آباد میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں خواتین شریک ہوئی تھیں، خواتین نے ایسے بینرز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر قابل اعتراض نعرے درج تھے، عورت مارچ منتظمین کے خلاف پشاور کے مقامی وکیل نے عدالت میں ایف آئی آر اندراج کے لیے درخواست دائر کی تھ، جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عورت مارچ کی شرکا نے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کی ہے، اور مارچ میں غیر اسلامی حرکات کی گئی ہیں، جس پر ایڈیشنل سیشن کی عدالت نے 26 مارچ 2021 کو منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔