تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

حجاب پابندی، متنازع فیصلہ دینے والے ججز کیلیے اہم حکم

حجاب پابندی پر متنازع فیصلہ دینے والے ججز کو کرناٹک کے وزیراعلیٰ نے وائی زمرے کی سخت سیکیورٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسوراج بومئی نے کہا ہے کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے کرناٹک حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنے والے ہائیکورٹ کے تینوں ججز کو وائی زمرے کی سیکیورٹی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سبھی تینوں ججوں کو وائی زمرے کی سیکورٹی دی جائےگی۔ بسوراج بومئی نے کہا، ہم نے ڈی جی اور آئی جی کو حکم دیا کہ ججوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے کے معاملے میں فوری جانچ کریں۔

بسوراج بومئی نے کہا، ودھان سبھا پولیس اسٹیشن میں فیصلہ سنانے والے ججوں کو جان سے مارنے کی دھمکی کے خلاف شکایت درج کی گئی ہیں۔ اس معاملے میں ڈی جی اور آئی جی کو حکم دیا گیا ہے کہ فوراً معاملے کی باریک بینی سے جانچ کریں اور معاملے کی تہہ تک جائیں۔

حجاب پابندی سے متعلق متنازع عدالتی فیصلے کیخلاف تنازع کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے حجاب تنازع کی آڑ میں مسلمانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور ہفتہ کو اس معاملے میں تمل ناڈو کے دو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ تمل ناڈو پولیس کے مطابق کووئی رحمت اللہ کو ترونیلویلی میں گرفتار کیا گیا، جبکہ 44 سالہ ایس جمال محمد عثمانی کو تنجاور میں حراست میں لیا گیا۔

واضح رہے کہ حجاب پر پابندی سے متعلق عدالت کے متنازع فیصلے پر بھارتی رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور مقبوضہ جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل کا اظہار کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: حجاب پر پابندی برقرار، اسد الدین اور محبوبہ مفتی کا سخت ردعمل

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسد الدین اویسی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اکثریت عدالت عالیہ کے فیصلے سے متفق نہیں، ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنا حق ہے، امید ہے درخواست فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

محبوبہ مفتی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کرنے کے ساتھ ان کے انتخاب کے حق سے انکار کیا جا رہا ہے، یہ صرف مذہب کا معاملہ نہیں بلکہ آزادی انتخاب کا معاملہ بھی ہے۔

Comments

- Advertisement -