پیر, جون 24, 2024
اشتہار

حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

اشتہار

حیرت انگیز

بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں تک پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذّت محسوس کرنے لگا۔

یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے۔

اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا محض دکھاوا ہے۔ یہ باتیں اس شخص تک پہنچیں تو اسے بہت صدمہ پہنچا۔ وہ واقعی اپنی بری عادات ترک کرچکا تھا اور ایک اچھا اور عبادت گزار شخص بن گیا تھا۔

- Advertisement -

اس کا دل ان باتوں سے تھوڑا ہوا تو وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔

سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کی رائے کو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے اور اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور برُوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ دوسری عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کرکے اچھا مشہور ہونے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا جان کر اس سے دور رہنا چاہیں‌۔ اس سے عافیت یہ ہے کہ وہ لوگوں‌ کے ہجوم اور بلاوجہ جھگڑوں اور وقت کے ضیاع سے بچا رہتا ہے اور نیکی اور عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں