9.3 C
Dublin
منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

اشتہار

حیرت انگیز

جزیرۂ کیش میں مجھے ایک تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے چالیس کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔ وہ ایک رات مجھے اپنے گھر لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔

وہ تاجر اُس رات اتنا بولا کہ ہانپ ہی گیا اور ایسا لگتا تھا کہ اب مزید بولنے کی اس میں سکت باقی نہیں‌ رہی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔ کبھی کہتا کہ اسکندریہ چلیں، وہاں کی آب و ہوا بڑی خوش گوار ہے، پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ راستے میں دریائے مغرب بڑا خطرناک ہے۔ کبھی یوں کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشۂ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔

میں نے دریافت کیا، بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا، فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا، سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بھیجوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔ پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد لے کر حلب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے میں آئینے خرید کریمن میں لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن فارس میں لا کر مزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔

- Advertisement -

ذرا اس جنون کو تو ملاحظہ فرمائیے! بس اسی طرح بکتے بکتے اس نے رات گزار دی۔ اس نے اتنی بکواس کی کہ پھر گویا بات کرنے کو اس کے پاس کچھ رہا نہیں۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا:

شیخ صاحب! آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے، اپنے دیکھے سُنے سے ہمیں بھی تو کچھ بتلائیے۔

اس کے جواب میں ایک شعر میں نے اسے سنایا:

گفت چشم تنگِ دنیا دار را
یا قناعت پرو کند یا خاکِ گور

اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا دار کا پیٹ کبھی بھرتا نہیں، اسے یا تو صبر ہی بھرے یا پھر خاکِ گور۔

(حضرت شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک حکایت)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں