یہ حکایت فریبستان کی ہے جو مولانا رومی کے تخیل میں سبق و ہدایت کے لیے آباد ہوا اور اس میں انھوں نے فریبستان کے ہوس والے علاقوں کے تین قسم کے آدم زاد کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کرداروں کی صفات یا انفرادیت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے ہمیں ایک سبق دیا ہے۔
یہ حکایت کچھ اس طرح ہے کہ فریبستان کے ہوس والے علاقہ کے تین میں سے ایک کی نظر بہت تیز تھی۔ اتنی کہ وہ چیونٹی کے پاؤں تک دیکھ سکتا تھا لیکن وہ دل کی آنکھوں سے اندھا تھا۔ دوسرے کی سماعت بہت تیز تھی، لیکن اس کے دل و دماغ کے کان بند تھے۔ اسی طرح تیسرا مادر زاد برہنہ تھا لیکن اس کے کپڑوں کے دامن بڑے دراز تھے۔
ایک دن اندھے نے کہا ”یارو! آدمیوں کا ایک گروہ چلا آ رہا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں، چلو ہم یہاں سے بھاگ جائیں۔ بہرے نے کہا کہ ”ہاں ہاں، تو ٹھیک کہتا ہے، میں بھی ان آدمیوں کے قدموں کی چاپ سن رہا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ خاصی بڑی جماعت ہے۔‘‘ برہنہ بیٹھے شخص نے کہا ”بھائیو! مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ میرے قیمتی کپڑے ہی نہ لے لیں۔‘‘ اندھا گویا ہوا، لو، وہ تو قریب آ گئے ہیں اور ان کے ارادے بھی اچھے نہیں لگ رہے‘ کہیں واقعی وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں۔‘‘ بہرے نے کہا کہ ”آواز قریب آ رہی ہے، ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘برہنہ شخص نے کہا ”بھاگو، بھاگو، میں سب سے زیادہ خطرے میں ہوں۔‘‘
تینوں آگے پیچھے دوڑتے بھاگتے، ہانپتے ہوئے شہر سے باہر ایک گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔ مارے بھوک کے ان کا برا حال تھا۔ اندھے نے ایک موٹا تازہ مرغا دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور برہنہ شخص نے اسے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ یہ مرغ کافی عرصے سے وہاں مرا پڑا تھا بلکہ گوشت بھی خشک ہوچکا تھا۔ اس کے مردہ جسم پر گوشت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ ہڈیوں پر بھی کوؤں کی چونچوں کے نشانات تھے۔
پھر یہ تینوں ایک دیگ ڈھونڈ کر لائے جس کا پیندا تھا نہ منہ۔ اس ہوس کی دیگ کو انہوں نے چولھے پر چڑھا دیا اور اس میں مرغ کو ڈال دیا۔ پھر انہوں نے ظلم و زیادتی کی اس قدر آگ جلائی کہ مرغ کی ہڈیاں جل کر حلوہ ہو گئیں۔ البتہ ان کے ضمیر کو حرارت چھو کر بھی نہ گئی۔ وہ تینوں اس مرغ پر ٹوٹ پڑے اور کھا کھا کر ہاتھی کی طرح موٹے ہو گئے۔ مگر ذہنیت ان کی اتنی پست کہ وہ ظالم مٹاپے کے باوجود بے شرمی کے دروازے کے باریک سوراخ سے بھی گزر جاتے تھے۔
مصنّف ان علامتوں اور حکایت سے سبق یہ دینا چاہتے ہیں کہ جھوٹی امید کی مثال بہرے کی ہے۔ جو دوسروں کے مرنے کی خبر تو رکھتا ہے مگر اپنی موت اسے یاد نہیں۔ حرص و ہوس کی مثال ا ندھے کی ہے جو دوسروں کے ذرا ذرا سے عیبوں پر تو نظر رکھتا ہے ان کی تشہیر کرتا پھرتا ہے مگر اس بد نصیب کو اپنے عیب دکھائی نہیں دیتے۔ تیسرا آدمی سب سے بڑا بے وقوف دنیا پرست ہے۔ یہ ظالم بھی بھول گیا کہ وہ دنیا میں برہنہ آیا تھا اور اسی حالت میں دنیا سے واپس جائے گا۔ تن پر اس کی مرضی کا کوئی کپڑا نہ ہو گا لیکن اسے ساری عمر یہی ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی اس کا دامن چاک نہ کر دے۔ کوئی اس کا راز نہ کھول دے۔ مال کی محبت اس کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کو موت کے وقت پتہ چل جائے گا کہ وہ تو بالکل ہی مفلس تھا۔ اور صاحب فہم کو محسوس ہو گا کہ وہ بالکل بے ہنر تھا۔ دنیا پرست ہمیشہ پچھتاتے ہیں اور جب ان کا آخری وقت آتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر پاتے۔