یوں تو مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب سے متعلق بے شمار فلمیں (نجمہ، طلاق، پالکی، میرے محبوب وغیرہ) بنتی رہی ہیں لیکن ایم ایس ستھیو کی ’گرم ہوا‘ (1973ء)، بی آر چوپڑا کی ’نکاح‘ (1982ء) اور ساگر سرحدی کی ’بازار‘ (1982ء) جیسی فلموں کو ایک خاص پہلو سے مسلم معاشرے کے سیاسی، معاشرتی اور ازدواجی رخ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کی فقید المثال کوششوں میں گِنا جاسکتا ہے۔
عصمت چغتائی کے افسانے پر مبنی ’گرم ہوا‘ میں تقسیم ہند کے فوراً بعد منقسم مسلم خاندانوں کے کرب اور بدلے حالات میں ہم وطنوں کے بدلے ہوئے رویوں کے بیچ ان کی اپنی بقا کی جدوجہد میں پریشانیاں، شمالی ہند کے ایک جوتا ساز خاندان کی کہانی کے حوالے سے اس خوبی سے پیش کی گئی ہیں کہ آپ ان موسموں کی گرم ہوا کی تپش محسوس کرسکتے ہیں۔ اچلا ناگر کی لکھی ہندی کہانی پر مبنی ’نکاح‘ میں مسلم فیوڈل کلاس میں عورت کی حیثیت اور خانگی مسائل (نکاح، طلاق اور حلالہ) کو پیش کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ ساگر ہی کی لکھی کہانی ’بازار‘ میں حیدرآباد(دکن) میں جوڑے اور جہیز کی بدعت کی مار جھیلتے متوسط طبقے کی کم تعلیم یافتہ بِن بیاہی لڑکیوں کی بدحالی اور جاگیر دار سماج یا عرب شیوخ کے ذریعے ان کے استحصال کی دل سوز داستان پیش کی گئی ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں، پھر بھی ان فلموں کے اہم ترین کرداروں میں بالترتیب بلراج ساہنی، سلمیٰ آغا اور سپریا پاٹھک کی بے داغ اور لاجواب اداکاری کا اعتراف ضروری ہے۔
’نکاح‘ میں غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی حسرت کی غزل ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘، سلمیٰ آغا کی دل ربا آواز میں حسن کمال کا کلام ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں۔۔۔‘‘ اور ’’دل کی یہ آرزو تھی کوئی۔۔۔‘‘ شامل ہے۔ اسی طرح ’بازار‘ میں خیام کی موسیقی کے ساتھ میر، مرزا شوق، مخدوم اور بشر نواز کا کلام لتا منگیشکر، جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، طلعت عزیز اور بھوپیندر کی آوازوں میں غالباً اپنے بہترین غنائی فارم میں محفوظ ہو گیا ہے۔
(وشوناتھ طاؤس کے مضمون مسلم معاشرہ اور ہندی فلمیں سے اقتباس)