بدھ, مئی 7, 2025
اشتہار

دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

اشتہار

حیرت انگیز

Hippo (ہیپو) کو ہم دریائی گھوڑا کہتے ہیں۔ اس جانور کا پورا نام hippopotamus ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے دریا میں رہنے والا گھوڑا۔ یہ برّاعظم افریقا میں‌ پایا جاتا ہے جہاں دریا، ندی، نالے، تالاب اور جوہڑ اس کا مسکن ہیں۔

اس جانور کی بڑی تعداد برّاعظم افریقا کے ملک زیمبیا میں (40 ہزار) اور دوسرے نمبر پر تنزانیہ (20 ہزار) رہتی ہے۔ یہ افریقا کے علاوہ کسی اور برّاعظم میں نہیں پائے جاتے۔

کسی دریائی گھوڑے کا وزن 1500 سے 4500 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ نر کی بہ نسبت مادہ کا وزن چند سو کلو کم ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھاری بھرکم وجود انھیں پانی کے اندر تیز لہروں میں اپنی جگہ جمے رہنے میں‌ مدد دیتا ہے۔ یہ تیرتے نہیں ہیں بلکہ پانی میں اچھل کود کرتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں۔ وزنی اور بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ انسان سے تیز دوڑ سکتے ہیں۔

قدرت نے ان کا جسم پانی میں رہنے کے لیے خاص طرح ڈیزائن کیا ہے۔ یہ پانی سے باہر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے، ان کی کھال خشک ہو کر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے جسم سے سرخ رنگ کا مادّہ نکلتا ہے۔ یہ ان میں قدرتی طور پر پایا جانے والا Sun Screen Lotion ہے جو انھیں دھوپ سے بچاتا ہے اور جراثیم کُش کے طور پر کام کرتا ہے۔

اگر آپ غور کریں تو اس کی ناک، آنکھیں اور کان ایک سیدھ میں نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیپو پانی میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنا پورا منہ بھی باہر کم ہی نکالتا ہے اور صرف سَر کا اوپری حصّہ باہر رکھتا ہے اس کا باقی دھڑ پانی کے اندر ہوتا ہے اور یوں اس کی جلد دھوپ وغیرہ سے بچی رہتی ہے۔ پانی کے اندر یہ اپنے ناک کے نتھنے اور کان بند کر لیتا ہے۔ اس کی آنکھ میں اضافی حفاظتی جھلّی ہوتی ہے جو اسے پانی میں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

ہیپو کے منہ میں 38 سے 44 دانت ہوتے ہیں۔ اس کے دانتوں کی بناوٹ بھی خاص ہوتی ہے جیساکہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے والے سیدھے دانت کسی بھی چیز کو توڑنے میں‌ مددگار ہیں جب کہ جبڑوں کے کناروں پر سینگ جیسے دوسرے لمبے دانت (Canine) چیر پھاڑ کرنے کے کام آتے ہیں۔ منہ کی پچھلی جانب ڈاڑھیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہونٹوں سے گھاس توڑتے ہیں اور اسے ڈاڑھوں سے پیستے ہیں۔

افریقا کے گرم ممالک کا یہ جانور سارا دن پانی میں گزارتا ہے اور رات کے وقت گھاس چرنے کے لیے باہر نکلتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ریٹینا کے پیچھے ایک Tapetum Lucidum نامی ایک تہ ہوتی ہے جس کی مدد سے یہ رات کے وقت بھی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے کتّے، بلّی وغیرہ کی آنکھوں کو رات میں چمکتے ہوئے دیکھا ہو گا، یہ اسی تہ کی وجہ سے ہے۔

ہیپو خطرناک اور انتہائی غصیلا جانور ہے۔ افریقا کے جنگلات میں شیر، تیندوے، چیتے بھی ہیں، ہاتھی گینڈے اور مگرمچھ جیسی مخلوق بھی، لیکن افریقا میں سب سے زیادہ انسانی جانیں اسی جانور کے حملے میں‌ ضایع ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقا میں پانچ سو سے زائد انسان ہیپو کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جو مچھر اور سانپ کو چھوڑ کر کسی بھی ایسے جانور کے حملے میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ تعداد ہے۔ افریقا میں لوگ دریائوں ندیوں پر مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں اور یہیں یہ جانور ان کو اپنا شکار کرلیتا ہے۔

ہیپو سات منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ یہ اکثر خطرہ محسوس کرنے پر کشتیوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے جانور بھی ان سے دور ہی رہتے ہیں، کیوں‌ کہ یہ کسی بھی وقت کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور زیادہ تر اکٹّھے رہتے ہیں۔ ان کے دانت دو فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنا بڑا سا جبڑا کھول کر یکبارگی میں زندگی سے محروم کرسکتے ہیں۔ ان کے جبڑے میں اتنی طاقت ہوتی ہے جو دس فٹ کے کسی مگر مچھ کو دو لخت کرنے کے لیے کافی ہے۔

یہ آپس میں‌ بھی بھڑ جاتے ہیں‌ اور خاص طور پر افزائشِ نسل کے لیے مادہ ہیپو کو رجھانے اور ملاپ کے لیے ان میں زبردست لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مشہور ہے کہ نر ہیپو اکثر نومولود ہیپو کو مار ڈالتا ہے۔ مادہ ہیپو دو سال میں ایک بچہ پیدا کرتی ہے۔

قدرت کے کارخانے میں‌ کوئی چیز نکّمی اور ناکارہ نہیں‌ بلکہ ہر جانور کوئی نہ کوئی ایسا کام یا افعال انجام دیتا ہے جن سے دوسری مخلوق بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ دریائی گھوڑا بھی ایک ایسی ہی مخلوق ہے جو قدرت کے اس نظام کا توازن برقرار رکھنے میں‌ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دریائوں میں حرکت کرتے ہوئے یہ جانور اپنے بھاری پیروں سے لمبی نالیاں یا ایسے راستے بناتا چلا جاتا ہے جس سے گزر کر پانی قریبی زمین کو سیراب کرنے لگتا ہے اور وہاں طرح طرح کا سبزہ اور گھاس اگتی ہے۔ اس طرح دوسرے جانوروں اور پرندوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے۔

دریائی گھوڑے کا دوسرا اہم کام نباتات کو پھلنے پھولنے میں‌ مدد دینا ہے اور زرخیزی پھیلانا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ جانور روزانہ تقریباً پچاس کلو گھاس کھاتے ہیں اور بڑی مقدار میں گوبر مختلف پودوں، جھاڑیوں اور پانی میں پھینکتے ہیں۔ وہ یہ عمل اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے فصل پر اسپرے کیا جاتا ہے اور یوں نباتات کی افزائش اور نشوونما ہوتی ہے۔

دریائی گھوڑے کا سامنا ہونے پر آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک طرف کھڑا ہوکر آپ کو اپنا قد کاٹھ دکھا کر ڈرانے کی کوشش کرے گا، اگر آپ اس سے دور نہ ہوئے تو اپنا منہ پورا کھول دے گا جو ایک سخت تنبیہ ہے کہ مجھ سے دور ہوجائو اور زیادہ خطرہ محسوس کرنے پر اگلے لمحے حملہ آور بھی ہوسکتا ہے۔

یاد رکھیں یہ انسان سے تیز تقریباً 45 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پانی میں ہیں تو مخالف سمت بھاگیں، کیوں کہ عام طور پر دریائی گھوڑا پانی میں اپنے ٹھکانوں سے 5 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں‌ جاتا اور اگر خشکی پر اس جانور سے سامنا ہوگیا ہے تو جھاڑیوں، پتھروں کے پیچھے چھپتے ہوئے زگ زیگ بھاگیں اور اس سے فاصلہ بڑھاتے چلے جائیں۔

اس جانور کی اوسط عمر 50 برس ہوسکتی ہے۔

اہم ترین

مزید خبریں