اشتہار

پنڈی کا ’’مشرقی پاکستان ہاؤس‘‘ جو اب علم کے چراغ جلا رہا ہے

اشتہار

حیرت انگیز

سابقہ مشرقی پاکستان کی یادیں ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ایسی ہی ایک یاد پنڈی میں واقع ’’مشرقی پاکستان ہاؤس‘‘ ہے جو اب ایک یونیورسٹی بن چکی ہے۔

سقوط ڈھاکا کو آج 51 برس بیت گئے لیکن پاکستان کا ایک بازو جدا ہونے کی کسک آج بھی پاکستانیوں کو رلا دیتی ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ایسی ہی ایک یاد پنڈی میں واقع ’’مشرقی پاکستان ہاؤس‘‘ ہے جو اب ایک یونیورسٹی کا روپ دھار کر نئی نسل کو علم کی روشنی سے منور کر رہا ہے لیکن یہ تاریخی عمارت کئی تاریخی حقائق کی گواہ بھی ہے۔

پاکستان کے دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے وقت راولپنڈی کو جب عبوری دارالحکومت بنایا گیا تھا تو اس وقت اسمبلی اجلاس اور دیگر سرکاری امور کے لیے مشرقی پاکستان سے آنے والے افسران اور زعما کو ٹھہرانے کے لیے وزارت دفاع سے ایک عمارت لی گئی۔ جس کی مرمت وغیرہ کر کے 5 فروری 1962 کو اسے مشرقی پاکستان ہاؤس بنایا گیا۔

- Advertisement -

چونکہ اس عمارت میں محدود تعداد میں رہائش کا بندوبست تھا اس لیے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس مقصد کے لیے بڑی عمارت تعمیر کی جائے اور پھر 1964 میں مشرقی پاکستان کے گورنر اور مرکزی حکومت کی کوششوں سے اسکیم کی منظوری ہوئی اور سنہ 1965 میں تعمیر کا آغاز ہو گیا۔

تقریباً 2 برس کے عرصے میں 20 لاکھ روپے کے اخراجات سے افسران کے لیے 18 کمروں سمیت 4 وی آئی پی رہائش گاہیں اور گورنر کے لیے علیحدہ بلاک کی تعمیر مکمل ہوئی۔

اب اس کو ایک حسین اتفاق ہی کہا جائے گا کہ اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان نے اس عمارت کا افتتاح اپنی سالگرہ کے دن یعنی 14 مئی 1967 کو کیا۔ افتتاحی تقریب میں مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان، گورنر مغربی پاکستان محمد موسیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خان سمیت مرکزی کابینہ کے ارکان بھی شریک ہوئے۔

گورنر اور سیاسی شخصیات کی رہائش گاہ ہونے کے باعث یہ عمارت اس وقت سیاسی سرگرمیوں کا اہم مرکز تھی۔ پھر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اس عمارت میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے گواہ اس عمارت کے در و دیوار آج بھی ہیں۔

شیخ مجیب الرحمان کی جیل:

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر شیخ مجیب کو گرفتار کر کے پہلے ایسٹ پاکستان ہاؤس ہی میں رکھا گیا، جس کے بعد انہیں ویسٹ پاکستان ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔

مشرقی پاکستان ہاؤس کی سپریم کورٹ میں تبدیلی:

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کچھ عرصہ تو یہ عمارت اسی طور پر برقرار رہی اور بنگلہ دیش سے آنے والے بھی اس میں قیام کرتے رہے۔ لیکن سنہ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد جب وفاقی دارالحکومت میں سپریم کورٹ قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا تو اس وقت اسلام آباد میں فوری طور پر ایک بڑی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں تھی، لہٰذا راولپنڈی میں موجود مشرقی پاکستان ہاؤس کی عمارت فیصلہ سازوں کی مرکز نگاہ ٹھہری۔

یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ مشرقی پاکستان ہاؤس کی پہلی افتتاحی تقریب میں شریک اُس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری فضل الہیٰ نے بعد ازاں بطور صدر 25 نومبر 1974 کو اسی عمارت کا سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے کیا۔

بھٹو کی پھانسی اور مارشل لا کیخلاف اپیلوں کی سماعت :

سپریم کورٹ کے یہاں قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی اپیل بھی اسی عمارت میں مسترد ہوئی۔

سنہ 1989 میں فنڈز کی فراہمی کے بعد سپریم کورٹ کی موجودہ عمارت کی تعمیر اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر شروع ہوئی اور 31 دسمبر کو عدالت عظمی اس عمارت میں منتقل ہوگئی۔

یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق تھا کہ سپریم کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے رکھا تھا جب کہ اس کا افتتاح بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم کیا۔

 میڈیکل کالج کا قیام:

سپریم کورٹ کی اسلام آباد منتقلی کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان کی عمارت عدالتی عملے، ریٹائرڈ ججز اور ان کےخاندانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر قائم کردہ ادارے المیزان فاؤنڈیشن کے سپرد کر دی گئی۔
المیزان فاؤنڈیشن نے یہ عمارت تعلیمی سرگرمیوں کے لیے اسلامک انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے حوالے کی جس کا افتتاح اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے 3 جولائی 2000 کو کیا۔
المیزان فاؤنڈیشن اب بھی اس عمارت کے ایک حصے میں موجود ہے۔ جب کہ میڈیکل کالج ترقی کا درجہ حاصل کرنے کے بعد رفاح انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طور پر قائم ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں