سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر اور اس کے جڑواں روہڑی کے درمیان ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں 300 فٹ بلندی پر تاریخی مزار واقع ہے۔
اے آر وائی نیوز کی نمائندہ سحرش کھوکھر کے مطابق سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے جڑواں شہر روہڑی کے قریب، ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں عقیدت اور سچائی کے چراغ صدیوں سے روشن ہیں۔
یہ جگہ پیر سید شاہ مقصود علی شاہ کے دربار کے نام سے مشہور ہے، جو ایک 300 فٹ ببلند پہاڑی پر واقع ہے اور مزار تک جانے کے لیے دو راستے ہیں۔
ایک راستہ قدرے آسان جو سیڑھیوں کے ذریعے جاتا ہے اور زائرین کو مزار تک پہنچنے کے لیے تقریباً 150 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔
تاہم دوسرا راستہ دشوار گزار اور پتھریلا ہے جس کھائیوںکے درمیان سے گزرتا اور انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
یہ درگاہ صرف ایک زیارت گاہ نہیں بلکہ روحانیت، محبت اور عوامی عقیدت کی ایک زندہ علامت ہے۔ ہر روز سینکڑوں زائرین، مشکلات کے حل اور روحانی سکون کے لیے اس درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔
حضرت پیر شاہ مقصود علی شاہ کو ان کے صوفیانہ مزاج، درویشی اور کرامات کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کی بھلائی کے لیے دعاگو رہتے، ان کی مشکلات کا حل نکالتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔
ان کے مزار کے ساتھ عقیدت مندوں کی بے شمار داستانیں جڑی ہوئی ہیں، جہاں بزرگوں اور ملنگوں کے مطابق، انہوں نے بے شمار کرامات ہوتے خود دیکھی اور محسوس کی ہیں۔
ایک حیران کن منظر تو یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک ضعیف العمر خاتون، جو نہایت کٹھن راستے سے گزر کر درگاہ پر پہنچیں، وہاں دعا مانگی اور پھر لکڑی کا سہارا لے کر پہاڑ سے نیچے اتر گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان بزرگ کا مقبرہ کسی ہندو دیوان نے تعمیر کرایا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال کم ہوتی گئی۔
یہ درگاہ نہ صرف ایک روحانی مقام ہے بلکہ یہاں سے سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے حسین نظارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جو سیاحت کے فروغ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر اس درگاہ کی مناسب تزئین و آرائش کی جائے، تو نہ صرف عقیدت مندوں بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی یہ ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ حکام اس تاریخی اور روحانی مقام کی دیکھ بھال کریں تاکہ یہ نہ صرف زائرین کے یے آسانی پیدا کرے بلکہ سیاحتی مقام کے طور پر بھی اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے۔