تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

24 اگست 1930: بنوں کے علاقے سپینہ تنگی میں‌ کیا ہوا تھا؟

24 اگست 1930 کو سپینہ تنگی جو بنوں شہر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے، یہ مقام جلسے کے لیے متعین کیا گیا۔ انگریز حکومت کو جب جلسے کا پتہ چلا تو اس نے جلسہ روکنے کے لیے کافی تگ و دو کی، لیکن ناکام رہے۔ بنوں کے عوام ہر قیمت پر یہ جلسہ کرانا چاہتے تھے۔ لہٰذا آزادی کی تحریک کو ماند کرنے کے لیے انگریز حکومت نے اس جلسے کو ناکام بنانے کی بہت کوشش کی۔

انگریز افسر سی۔ ایچ گڈنی، ڈپٹی کمشنر نے میرداد خان، ایّوب خان اور فضل قادر کو اطلاع دی کہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کریں اور جلسہ نہ کریں۔ تینوں نے جواب دیا کہ جلسے کے اختتام پر ہم اپنے آپ کو آپ کے حوالے کریں گے، لیکن انگریز حکومت موقع کی تلاش میں تھی۔ کیوں کہ وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔ جب انگریز کو پتہ چلا کہ بنویان ایک بات بھی نہیں مانتے تو اس نے فوجی دستے کو حکم دیا کہ جلد از جلد سپینہ تنگی پہنچ جائیں اور اگر دورانِ جلسہ کوئی حکومت مخالف بات کریں تو انہیں گرفتار کریں۔

جونہی جلسہ شروع ہوا اور جناب فضل قادر صاحب اسٹیج پر آئے تو ایک انگریز افسر کیپٹن ایشرافٹ نے آپ کو اسٹیج سے نیچے گرا دیا۔ ایک رضاکار نے مداخلت کی تو اسے گولی مار دی گئی۔ اس پر علاقہ ممش خیل کے محمد یوسف نے کیپٹن کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد جلسہ گاہ میدانِ جنگ بن گیا۔ ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں۔ سیکڑوں آزادی کے متوالوں کو بڑی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ جب کہ فضل قادر کی لاش انگریز حکومت نے اپنی تحویل میں لی اور انہیں بنوں جیل کے احاطے میں دفن کردیا۔ اس طرح آزادی کے اس پروانے کو گوروں نے جیل میں دفن کر کے اس کے مزار کو بھی جیل میں ہی قید کر دیا۔

سانحہ سپینہ تنگی میں بہت سے لوگ شہید ہوئے، لیکن اس کے بعد بھی بنوں کے عوام میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہوا، کیوں کہ ابھی تو باقاعدہ تحریک ِ آزادی صحیح معنوں میں شروع ہوئی تھی۔ دراصل انہی شہیدوں کا خون تھا، جس نے رنگ لا کر ہمارے لیے اور آنے والی نسل کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

سپینہ تنگی کے واقعے میں بنوں کے ہر قبیلے کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہر کسی کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں ہے، لیکن اتنا بڑا جلسہ اور اتنے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں۔

ضلع بنوں کا زیادہ تر علاقہ سر سبز و شاداب ہے۔ ممش خیل، سورانی، لنڈیڈاک، جھنڈو خیل، ککی، غوریوالہ، داؤد شاہ میں شادابی کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ مضافات میں شہتوت، کیکر، کھجور اور امرود کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ بنوں کی خوب صورتی میں وہ کشش ہے جس نے دیگر قوموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

(عاقل عَبید خیلوی کی کتاب ‘تاریخِ بنوں، جلد اوّل سے اقتباسات)

Comments

- Advertisement -