اتوار, مئی 12, 2024
اشتہار

جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

اشتہار

حیرت انگیز

مرزا اسد اللہ خاں غالب کے واقعاتِ اسیری کے بابت بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ کے لوگ وضع داری اور پردہ پوشی کے قائل تھے۔ وہ شخصی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ غالب نے بھی اپنے واقعۂ اسیری کو اپنی ’’بے آبروئی‘‘ تصوّر کرتے ہوئے اس کا عام ذکر نہیں کیا۔ لیکن ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ ان پر الزام قمار بازی کا تھا۔

ہمارا مقصد اردو کے اس عظیم شاعر کو بدنام اور بعد از مرگ اُن کی شہرت کو ‘داغ دار’ کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں ہم اس تمہید کے ساتھ جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ سے متعلق چند اقتباس نقل کررہے ہیں جو پاکستان کے نام وَر مؤرخ، محقق اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے لیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا۔

- Advertisement -

روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاح برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔

خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سَر اڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاح نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا۔

یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قید خانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والٹیر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا۔

برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لیے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سَر کو اٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سَر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں