تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

دو اجنبیوں نے طیارے سے لٹکتے شخص کو کیسے بچایا؟

بعض اوقات معمول کے امور کی انجام دہی کے دوران ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ کسی کی جان خطرے میں پڑجاتی ہے، سنہ 1941 میں ایسے ہی ایک واقعے میں ایک ماہر پیراشوٹر مرتے مرتے بچے۔

یہ مئی کی ایک عام صبح تھی، آسمان شفاف تھا اور سورج آگ برسا رہا تھا، کیلی فورنیا کے نارتھ آئی لینڈ کے نیول بیس میں سب کچھ معمول پر تھا۔

صبح پونے 10 بجے والٹر اوسیپوف نامی لیفٹننٹ ڈی سی 2 ٹرانسپورٹ طیارے پر سوار ہوئے تاکہ معمول کی پیرا شوٹ جمپ کے مظاہرے کو سپروائز کرسکیں۔

دوسری جانب لیفٹننٹ بل لوری پہلے سے اپنے آبزرویشن طیارے (یہ الگ طیارہ تھا) میں سوار تھے جبکہ جون میکینٹس نے اپنے اس طیارے کی جانچ پڑتال کررہے تھے جس میں وہ کچھ دیر بعد پرواز کرنے والے تھے۔

مگر اس دوپہر کو یہ تینوں افراد تاریخ کے ایک حیران کن واقعے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے، والٹر اوسیپوف ایک ماہر پیراشوٹر تھے اور 15 مئی 1941 کے اس دن سے قبل وہ 20 سے زیادہ بار جمپ لگا چکے تھے۔

اس صبح ان کا ڈی سی 2 کیرانی میسا نامی علاقے کی جانب روزانہ ہوا جہاں وہ اپنے 12 ماتحتوں کی پیراشوٹ جمپ کو سپروائز کرنے والے تھے۔ ان کے علاوہ بھی کینوس سلنڈر، رائفلیں اور ایمونیشن طیارے پر موجود تھا جو اسی مشق کا حصہ بھی تھا۔

اس وقت 9 افراد چھلانگ لگا چکے تھے جب والٹر اوسپینوف جو طیارے کے دروازے سے چند دور کھڑے تھے، نے آخری کارگو کنٹینر کو باہر کی جانب پھینکنے کے لیے دھکا دینا شروع کیا۔

کسی طرح ان کے پیراشوٹ بیک پیک کی آٹومیٹک ریلیز کورڈ سیلنڈر میں اٹک گئی اور ان کا پیراشوٹ پھٹ کر باہر نکل آیا۔

انہوں نے فوری طور پر کچھ پکڑنے کی کوشش کی مگر طیارے کو ایک جھٹکا لگا اور وہ اتنا طاقتور تھا کہ پھٹا ہوا پیراشوٹ جسم سے الگ ہوکر باہر چلا گیا۔

یہ پیرا شوٹ باہر طیارے کے پہیے کے گرد لپٹ گیا جبکہ ایک حصہ والٹر کے ٹخنوں پر پہنچ گیا اور وہ طیارے سے 12 فٹ نیچے اور دم سے 15 فٹ پیچھے چلے گئے، مگر بائیں ٹانگ پر لپٹا پیراشوٹ ان کو زمین پر گرنے سے بچائے ہوئے تھا۔

مگر ذہن کو حاضر رکھتے ہوئے انہوں نے ایمرجنسی پیراشوٹ کھولنے سے گریز کیا کیونکہ انہیں احساس ہوگیا تھا کہ ایسا کرنے پر جسم کے 2 ٹکڑے ہوجاتے۔ طیارے کے اندر عملہ والٹر کو بچانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا مگر ان کی رسائی ممکن نہیں ہورہی تھی۔

طیارے میں ایندھن کم ہونے لگا مگر ایمرجنسی لینڈنگ کا نتیجہ والٹر کی موت کی شکل میں نکلتا جبکہ پائلٹ کا زمین پر ریڈیو رابطہ بھی نہیں تھا۔

نیچے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پائلٹ نے طیارے کو نیچے لے جانے کا فیصلہ کیا اور نارتھ آئی لینڈ کے گرد چکر لگانا شروع کردیے، جہاں نیول بیس کے افراد نے چند منٹ بعد صورتحال کا احساس کرلیا مگر انہیں لگا کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی سامان لٹکا ہوا ہے۔

اس دوران بل لوری نے اپنا طیارہ اتار لیا اور دفتر کی جانب بڑھے جب انہوں نے اوپر دیکھا۔ وہ اور جان میکنٹس جو ایک دوسرے کے قریب کام کرتے تھے، نے بیک وقت ایک فرد کو طیارے سے باہر لٹکے ہوئے دیکھا۔

لوری نے جان میکٹنس کو چیخ کر اس بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کیا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیےے اور وہ تیار ہوگئے۔ بل لوری نے میکینکس کو طیارہ دوبارہ ٹیک آف کے لیے تیار کرنے کا کہا اور اس وقت انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ اس میں ایندھن کتنا ہے۔

ان دونوں نے اس سے پہلے کبھی ایک ساتھ پرواز نہیں کی تھی مگر وہ ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے پرعزم تھے۔ ان کے پاس کمانڈنگ آفیسر سے رابطہ کرکے پرواز کی اجازت لینے کا وقت نہیں تھا اور انہوں نے ٹاو رسے بس یہ کہا کہ ہمیں گرین لائٹ دی جائے۔

آخری لمحے میں ایک اہلکار خنجر کے ساتھ بھاگ کر آیا تاکہ وہ والٹر کی رسی کاٹ سکیں۔

جب طیارہ اڑان بھرنے لگا تو ایسا لگا جیسے سان ڈیاگو میں تما تر سرگرمیاں تھم گئی ہیں، عام افراد چھتوں پر جمع ہوگئے، بچوں نے کھیلنا چھوڑ دیا، اور سب کی نظریں آسمان پر جم گئیں۔

چند منٹوں میں بل لوری اور جان میکنٹس اس ٹرانسپورٹ طیارے کے نیچے پہنچ گئے جس سے والٹر لٹکے ہوئے تھے۔ بل لوری اور ان کے ساتھی نے 300 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے طیارے تک پہنچنے کی 5 کوششیں کیں مگر ہوا کی وجہ سے وہ والٹر کی مدد کرنے سے قاصر رہے۔

چونکہ دونوں طیاروں کے درمیان ریڈیو رابطہ ممکن نہیں تھا تو بل لوری نے ہاتھوں کے سگنل سے دوسرے پائلٹ کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا جہاں ہوا ہموار تھی اور 3 ہزار فٹ کی بلندی پر چلے گئے۔

دوسرے پائلٹ نے طیارے کو سیدھا بڑھایا اور رفتار کو دوسرے طیارے کی رفتار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 100 میل فی گھنٹہ کردی۔

بل لوری پھر والٹر کی جانب بڑھے اور جان میکنٹس پیچھے کی سیٹ پر موجود تھے، انہوں نے دیکھا کہ والٹر ایک ٹانگ سے لٹکے ہوئے ہیں اور ہیلمٹ سے خون رس رہا ہے۔

بل لوری طیارے کو والٹر کے قریب لے گئے اور اتنی احتیاط کا مظاہرہ کیا کہ طیارے کے پر والٹر کو چھونے نہ پائے۔

اس طرح وہ والٹر کے قریب ترین پہنچ گئے اور جان میکنٹس نے پیچھے کے کاک پٹ کو اوپر کیا، اس وقت طیارہ سمندر کے اوپر 3 ہزار فٹ کی بلندی پر 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرہا تھا۔ جان میکنٹس نے والٹر کی کمر کو تھام لیا جبکہ والٹر نے اپنے بازو جان کے گرد لپیٹ لیے۔

جان میکنٹس نے والٹر کو طیارے میں کھینچ لیا، مگر چونکہ یہ 2 نشستوں والا طیارہ تھا تو ایک مسئلہ یہ تھا کہ والٹر کو کہاں رکھا جائے۔ انہوں نے والٹر کے جسم کو طیارے کی سطح پر پھیلا دیا جبکہ سر اپنی گود میں رکھا۔

چونکہ جان میکنٹس دونوں ہاتھوں سے والٹر کو تھامے ہوئے تھے تو وہ پیراشوٹ کی پٹی کو کاٹ نہیں سکے تھے، جس کے باعث بل لوری اپنے طیارے کو بتدریج قریب لے جاتے رہے۔

اس کے بعد حیران کن طریقے سے اپنے طیارے کے پروں کو استعمال کرکے پٹی کو کاٹ دیا اور زندگی اور موت کے درمیان 33 منٹ تک لٹکے رہنے کے بعد والٹر کو آزادی مل گئی۔

بل لوری کا طیارہ اس موقع پر دوسرے کے اتنا قریب پہنچ گیا کہ پھٹ جانے والا پیراشوٹ الگ ہوکر ان کے طیارے پر آگرا۔

چونکہ والٹر کا جسم طیارے سے باہر تھا اور طیارے کو کنٹرول کرنا آسان نہیں رہا تھا، مگر بل لوری کسی نہ کسی طرح نیچے اترنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس موقع پر والٹر بے ہوش ہوگئے اور بعد ازاں دوپہر کے کھانے کے بعد بل لوری اور جان میکنٹس اپنے معمول کے فرائض پر واپس لوٹ گئے۔

اس واقعے کے بعد والٹر نے 6 ماہ اسپتال میں گزارے اور صحت یابی کے بعد پھر پیرا شوٹ جمپنگ کے لیے واپس لوٹ آئے۔

Comments

- Advertisement -