بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

ہیگل – فلسفۂ تاریخ

اشتہار

حیرت انگیز

جرمن فلسفی ہیگل (1770ء- 1831ء) اپنے وقت کے ان اہم فلسفیوں میں تھا جس نے اپنے خیالات و افکار کی بنیاد پر ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ برائی کے بارے میں اسی کی دلیل یہ ہے کہ یہ عیسائی مذہب میں Original Sin کی پیداوار ہے۔ اس لیے اس کا اثر انسان کی پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ دوسرے وہ برائی کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

ہیگل نے اپنے زمانے میں فرانسیسی انقلاب اور اس کے اثرات کو دیکھا اور بعد میں اس نے نیپولین کی فتوحات اور اس کی شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جس وقت نیپولین نے Jena کی جنگ میں پروشیا کو شکست دی تھی اس کے بعد وہ شہر میں جب فاتح کے طور پر داخل ہوا تو ہیگل اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کررہا تھا جب اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے نپولین کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو کہا کہ روحِ عصر گھوڑے پر سوار ہے "world spirit on horseback”

ہیگل Original Sin سے انکار کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا اور اس کے بہکانے پر آدم نے علم کے درخت کے پھل کو کھایا۔ ہیگل کے نزدیک یہ پوری کہانی بے معنی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ روشن خیالی دور کے دانشور بھی اس کے قائل نہیں تھے کہ برائی Original Sin کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی اور ارادے کے بغیر Original Sin کا شکار ہوجاتا ہے اور کیا وہ اس سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔ اس کے خیال میں Original Sin انسان کی زندگی پر چھایا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر کوئی تخلیق نہیں کرسکتا۔

- Advertisement -

ہیگل اس بات پر زور دیتا ہے کہ تاریخ کے ذریعے ہم اپنے ماحول اور اپنے ذہن کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو مرحلہ وار تحقیق کی جانب لے جاتی ہے۔ جس سے ذہنی طور پر فہم اور آگاہی پیدا ہوتی ہے۔

تاریخ واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے ذہن کو بناتی ہے۔ ہیگل تاریخ میں جدلیاتی عمل کا ذکر کرتا ہے یعنی ابتدا میں کوئی ایک خیال (Thesis) ہوتا ہے پھر جب اس پر تنقید ہوتی ہے تو یہ Thesis، اینٹی Thesis میں تبدیل ہو جاتا ہے، پھر Thesis اینٹی Thesis مل کر Synthesis ہوجاتے ہیں۔ اس جدلیاتی عمل کے ذریعے تاریخ آگے کی جانب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہیگل تاریخ کی ترقی کے لیے تصادم یا Conflict کو ضروری سمجھتا ہے کیوں کہ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو تاریخی عمل کو تیز کرتا ہے۔

ہیگل تاریخ میں شخصیتوں کے کردار کو بھی اہمیت دیتا ہے جو تاریخ کو بناتی بھی ہیں اور اسے تباہ و برباد بھی کر دیتی ہے۔ اگرچہ یہ شخصیتیں اپنی دانست میں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی ذہانت، قابلیت، اور دانشمندی کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں۔ ہیگل کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ناسمجھی ہے۔ اس کی مثال وہ سکندر، سیزر اور نپولین سے لیتا ہے لیکن ہیگل کے نزدیک یہ بذاتِ خود کچھ نہیں تھے بلکہ نیچر ان سے کام لے رہی تھی جب انہوں نے نیچر کے منصوبوں کو پورا کر لیا تو پھر ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جب سکندر نے ایران اور عراق کو فتح کرلیا تو اب مزید فتوحات کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ جوانی ہی میں مرگیا۔ جولیس سیزر نے جب گال اور انگلینڈ فتح کر لیا اور تاحیات ڈکٹیٹر ہوگیا تو نیچر کو اس کی ضرورت نہیں رہی اور اسے قتل کردیا گیا۔ یہی صورت حال نپولین کی تھی جس نے یورپ کو فتح کیا اور وہاں تبدیلیاں لائیں لیکن جب نیچر کا یہ مشن پورا ہوگیا تو اس کی بقیہ زندگی سیٹ ہیلنا میں قیدی کی حیثیت سے گزری۔ اس مثال کو ہم تاریخ کی دوسری بڑی شخصیتوں پر بھی دے سکتے ہیں۔ ہیگل کے نزدیک یہ سب تاریخ کے مہرے تھے، ایک خاص ماحول کی پیداوار تھے اور جب ان کا کردار ختم ہوگیا تو ان کو تاریخی عمل سے نکال دیا گیا۔

ہیگل تاریخ میں حادثات کی اہمیت کا بھی قائل ہے۔ یہ حادثات نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے زمانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تیرہویں صدی کا پلیگ ہے جس نے یورپ کی چالیس فیصد آبادی کو ختم کر دیا تھا مگر اسی کے نتیجے میں یورپ میں Reformation کی تحریکیں ابھریں۔ سائنس طب اور سماجی علوم میں نئے خیالات پیدا ہوئے لہٰذا ہر حادثہ چاہے وہ قحط ہو، زلزلہ ہو اور سیلاب ہو وہ تاریخ کے عمل کو تبدیل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں۔
تاریخ کا یہ بھی کام ہے کہ وہ پختہ اور آزاد ذہن کو پیدا کرے تاکہ افراد اس دنیا کو سنبھالنے کی ذمے داری لیں۔ اس دنیا میں انسان نے جو اذیتیں برداشت کیں ہیں اور جو تکالیف اٹھائی ہیں ان سے سبق سیکھے۔

(معروف اسکالر اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف "عہدِ حاضر: تاریخ کے تناظر میں ” سے انتخاب)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں