اسلام آباد: گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں وکیل صفائی نے نیا پینترا لیا ہے، عدالت کو وکیل صفائی نے بتایا کہ بچی کو ملازمت نہیں تعلیم کے لیے لایا گیا تھا، جب بچی حوالے کی تو نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں۔ وکیل صفائی نے بس اڈے پر بچی حوالگی کی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کر دی۔
تفصیلات کے مطابق کمسن بچی رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیا عاصم کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جج شائستہ کنڈی نے فیصلہ محفوظ کر لیا، یہ فیصلہ آج 2 بجے سنایا جائے گا۔
ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ والدہ کو بچی کب حوالے کی گئی، وکیل صفائی قاضی دستگیر نے بتایا کہ بس اڈے پر 23 جولائی 8 بجے بچی صحیح سلامت والدہ کے حوالے کی گئی تھی، اور مقدمے کے مطابق وہ رات 3 بجے ڈی ایچ کیو اسپتال سرگودھا پہنچی، لیکن سرگودھا کی ایم ایل سی آج تک سامنے نہیں آئی۔
وکیل صفائی نے کہا ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بچی کو لینے کے لیے ملزمہ کے گھر گئے اور سومیا ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی، جب کہ بس اسٹینڈ پر بچی اڑھائی گھنٹے موجود رہی، بچی کے سر میں کیڑے پڑے ہوتے تو وہ اپنا سر کھجاتی، جب بچی حوالے کی نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں۔ وکیل صفائی نے بس اڈے پر بچی حوالگی کی ویڈیو عدالت میں پیش کر دی۔
جج شائستہ کنڈی نے کہا ویڈیو میں تو بچی کو اٹھا کر بس میں سوار کرایا جا رہا ہے، گاڑی سے اترنے کی ویڈیو بھی عدالت کو دکھائیں، وکیل صفائی نے کہا من گھڑت کہانی پر ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو سامنے آئی، جب کہ 10 منٹ تک بچی کی والدہ ملزمہ کے ساتھ گاڑی میں موجود رہی تھی۔
جج نے بچی کی والدہ شمیم سے استفسار کیا سچ بتائیں گاڑی میں کیا بات ہوئی تھی، والدہ شمیم نے جواب دیا کہ ملزمہ سومیہ کے ڈرائیور نے دھمکیاں دیں، کہا کہ یہ کام نہیں کرتی جب بچی سے پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا، جج شائستہ کنڈی نے پوچھا کہ کیا آپ کی بچی اسکارف پہنتی ہے، تو والدہ نے بتایا کہ بچی کو اسکارف پہنانے کا مقصد زخم چھپانا تھا۔
جج نے وکیل صفائی سے پوچھا بچی کو کس نے زخم دیے؟ وکیل صفائی نے جواب دیا کہ اس کہانی میں نہیں جاتے، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، کچھ نہیں لکھا گیا کہ زخم کتنے پرانے ہیں، مقدمے کے مطابق سرگودھا کے اسپتال نے فوراً لاہور بھیج دیا تھا، سومیا عاصم کے
خلاف دفعہ 324 چھ دن بعد مقدمے میں ڈالی گئی، 7 ماہ حبس بے جا میں رکھنے کا الزام ہے، جب کہ والدہ تو فون پر بھی بات کرتی تھی۔
جج نے پھر استفسار کیا کہ بچی زخمی تو ہے سوال یہ ہے کہ کس نے زخمی کیا، وکیل صفائی نے کہا پودوں کو کھاد ڈالی جاتی ہے جہاں سے بچی نے مٹی کھائی تو اسے زہر بنا دیا گیا، بچی نے جج کی فیملی کے ساتھ طور خم بارڈر تک سفر بھی کیا تھا جس کی تصاویر موجود ہیں، جج نے پوچھا کہ کیا ان تصاویر میں بچی صحت مند ہے کیا وہ عدالت کو دکھا سکتے ہیں، وکیل صفائی نے کہا اس وقت وہ تصاویر میرے پاس موجود نہیں ہیں، جج نے کہا ان چیزوں پر بات نہ کریں جو اس وقت آپ کے پاس موجود نہیں۔
وکیل صفائی نے عدالت کو نئی بات بتائی، کہا بچی ملازمت پر نہیں تھی، جج نے پوچھا کہ اگر ملازمہ کام کے لیے نہیں تھی تو رکھی کیوں، وکیل نے کہا پڑھانے کے لیے اور ویلفیئر کے لیے بچی کو لایا گیا تھا، جج نے استفسار کیا بچی کو اسکول میں داخل کروایا؟ وکیل نے کہا بچی کی عمر 16 سال ہے اس لیے اسکول میں داخل نہیں کروایا، گھر میں قاری اور ٹیوٹر پڑھاتے تھے، وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ جج کی فیملی کو پیسوں کے لیے بلیک میل کیا جا رہا تھا، امریکا میں موجود زنیرا نامی خاتون بھی بچی کے لیے امداد بجھواتی تھی۔
پراسیکیوٹر وقاص کا بیان
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بیان میں کہا بچی کے دونوں بازو ٹانگیں زخمی اور دانت ٹوٹا ہوا تھا، ہونٹوں پر سوجن، ناک پر سوجن، پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، بچی کے سر کے پچھلے حصے میں بھی زخم ہیں، درخواست گزار نے پولیس کو کال نہیں کی تھی، بلکہ سرگودھا اسپتال سے ون فائیو پر کال کی گئی، رضوانہ کے جسم پر 17 زخم ہیں، ان زخموں کی بنیاد پر رضوانہ کو سرگودھا سے لاہور ریفر کیا گیا، ایکسرے کے مطابق بازو کی ہڈیاں بھی فریکچر تھیں۔
پراسیکیوٹر نے بتایا ڈی پی او سرگودھا نے اسلام آباد پولیس کو خط لکھا کیوں کہ وقوعہ اسلام آباد کا تھا، ریکارڈ پر کچھ تصاویر بھی موجود ہیں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچی پر کس طرح سے تشدد کیا گیا، بچی زخموں کے باعث بنچ پر لیٹی رہی، جس کے بعد اٹھا کر بس میں سوار کروایا گیا، بس کے ڈرائیور کا بھی بیان موجود ہے کہ زخمی حالت میں بچی کو بس پر سوار کروایا گیا تھا۔
پراسیکیوٹر نے کہا ’’کہا گیا ہے کہ بچی کو پڑھانے کے لیے لایا گیا تھا، لیکن ٹیوٹر کے بیان کے مطابق اس نے کبھی بچی رضوانہ کو نہیں پڑھایا، کہا گیا کہ بچی مٹی کھاتی تھی کیا مٹی کھانے سے کبھی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔
پراسیکیوٹر وقاص نے ملزمہ سومیا عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ ملزمہ کے خلاف مناسب شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔