کراچی : ملک بھر میں گاڑیوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے جس کی اہم وجہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی اور ڈالر ڈیوٹی ہے۔
پاکستان بھر میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث غریب کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ بھی شدید متاثر ہے، گاڑیوں کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اس میں مزید اضافہ کردیا اور قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام کی پہنچ سے بہت دور ہوگئی ہیں۔
پاکستان میں 10 سے 12 لاکھ میں فروخت ہونے والی کار 18 سے 20 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 15 سے 22 لاکھ میں ملنے والی گاڑی کی قیمت 31 لاکھ تک بڑھ گئی ہے جبکہ مارکیت سے گاڑیون کے اسپیئر پارٹس کی خریداری بھی مسئلہ بن گئی ہے۔
ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی کے باوجود گاڑیوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔
کار ڈیلر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ نئی گاڑیوں میں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ بیرون ممالک سے گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کے باعث ہے اگر حکومت گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹادے تو مقامی گاڑیوں کی قیمتیں معمول پر آسکتی ہیں کیونکہ انہیں مقابل مل جائے گا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے رہنما ایس ایم شہزاد نے کہا کہ حکومت عوام کو چوائس دے اور کمرشل امپورٹ کو کھولے تاکہ پاکستان میں موجود تین برانڈز اپنی گاڑیوں کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہوں۔
انہوں نے گاڑیوں کی کوالٹی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کے باوجود گاڑی کی کوالٹی کا کوئی معیار نہیں ہے اور گاڑیوں میں حادثات کے دوران حفاظت کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔
کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے رہنما کا کہنا تھا کہ 20 سے 25 لاکھ روپے مالیت کی کی گاڑیوں میں ایئر بیگس ہی موجود نہیں ہوتے اور ایئربیگس لگوانے کےلیے 2 سے 3 لاکھ روپے کسٹمر کو الگ سے ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ جاپان میں بیس سال پرانی گاڑیوں میں بھی کم از کم دو ایئربیگس موجود ہوتے ہیں۔
باہر سے گاڑیاں منگوانے کےلیے ایک پالیسی لائی گئی تھی ایس آر او 521 میں کہا گیا تھا کہ جو باہر سے گاڑی لائے گا وہ ڈالر ڈیوٹی بھی لائے گا جو کہ ناممکن ہے۔
واضح رہے کہ سالانہ 80 ہزار گاڑیاں باہر سے آتی تھیں اور 2018 میں 84 ہزار گاڑیاں آئی تھی جس کی وجہ سے 100 ارب روپے کا ریونیو حکومت کو ملا تھا۔