امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ تہران واشنگٹن کو کس طرح جواب دے سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سان فرانسسکو میں ماہر مشرق وسطیٰ امور ڈائریکٹر اسٹیفن زونز نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امریکی حملے پر ایران کی جانب سے کیسے ردعمل کو دیتے ہیں۔
ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تمام خبریں
اسٹیفن زونز نے کہا کہ ایران کے پاس امریکی حملے کا جواب دینے کیلیے بہت سے آپشنز موجود ہیں، تہران امریکی افواج پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے، 40 ہزار امریکی اس کے میزائل، ڈرون اور دیگر ہتھیاروں کی رینج میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا آپ کا بحری بیڑا خلیج فارس میں ایرانی ساحل سے بالکل دور ہے، اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو وہ بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں جبکہ یہ عالمی جہاز رانی، تیل کی قیمتوں اور درحقیقت پوری عالمی معیشت کو متاثر کر سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ آپ کے پاس عراق میں پراکسی ملیشیا بھی ہیں جو وہاں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں لہٰذا ایسے بہت سے طریقے ہیں جن سے امریکی افواج کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور مجھے حیرت ہوگی کہ اگر ایرانی کم از کم ان میں سے کچھ کو نشانہ نہ بنائے۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ امریکی جنگی طیاروں نے ایران پر حملہ کر دیا ہے اور اس کی جوہری تنصیبات تباہ کر دیں۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر کی گئی پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ ہم نے ایران کی 3 جوہری تنصیبات پر کامیاب حملہ مکمل کر لیا، طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں سائٹس کو نشانہ بنایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حملے کے بعد ایران کی فضائی حدود سے باہر آگئے، فردو میں قائم مرکزی جوہری پلانٹ پر کئی بم گرائے گئے، حملے میں امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے حصہ لیا۔
امریکی صدر نے یہ بھی بتایا کہ رات 10 بجے وائٹ ہاؤس میں قوم سے خطاب کروں گا، ایران کو اب اس جنگ کو ختم کرنے کیلیے راضی ہونا چاہیے، تہران میں کامیاب فوجی آپریشن امریکا، اسرائیل اور دنیا کیلیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔