جرمن سائنس دانوں نے چمپانزیوں کے علاج سے متعلق دو حیرت انگیز انکشافات کرکے تاریخ رقم کردی ہے۔
کرنٹ بائیلوجی نامی جرنل میں شائع رپورٹ میں جرمنی کی اوسنا برویک یونیورسٹی کے سائنس دانون نے انکشاف کیا ہے کہ چمپانزی کیڑے مکوڑوں کو اپنے منہ میں چباکر ان کا مرہم بناتے ہیں اور انہیں زخمی چمپانزی کے زخم پر لگاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے افریقی ملک گبون کے چمپانزیوں کے ایک غول کا کئی برس تک مشاہدہ کیا، جس میں دیکھا گیا کہ ایک ماں کو دیکھا جو اپنے زخمی بچے کی مدد کررہی تھی جس کے پیر پر زخم لگا تھا، ماں کچھ دور گئی اور اس نے کوئی شے اٹھا کر اسے منہ تک لے گئی اور پھر اپنے منہ سے کچھ نکال کر اسے بچے کے زخم پر ملا۔
اس تحقیق کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چمپانزی ضرورت کے تحت ایسے ہم جنسوں کی مدد کرتےہیں جو ان کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کا تصور ہے کہ چمپانزی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سا کیڑا کس زخم کےلیے مرہم بن سکتا ہے اور زخم کی جلن کم کرسکتا ہے، اسی لیے صرف اسی کیڑے کو پکڑ کر اپنے لعاب دہن سے ملاکر مرہم بناتے ہیں۔
جب کہ دوسرا خیال یہ ہے کہ چمپانزیوں نے انسانوں کی نقل کی ہے۔