والدین کا رویہ بچوں کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے اور والدین کی لڑائیوں کے بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کا سبب بنتی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان تو تو میں میں ہر گھر میں ہوتی رہتی ہے، کچھ لوگ تو ایسی چھوٹی موٹی لڑائیوں کو محبت بڑھنے کا ذریعہ بھی کہتے ہیں۔
اس دوران ایک بات جو کسی کے ذہن میں نہیں رہتی، وہ یہ ہے کہ ایسی لڑائیاں بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، کہتے ہیں بچے اپنے والدین سے ہی سیکھتے اور ان کے عمل کو دیکھ کر ہی ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر والدین بچوں کے سامنے ہی لڑائی جھگڑا کریں، یا غصے میں کچھ غلط بول دیں تو بچے یقیناً اسی طرح کے رویے اپناتے ہیں، اور یہ لڑائیاں بچوں میں نفسیاتی مسائل بڑھنے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
ایسے بچے جو حساس ہوں ان پر تو بہت جلدی یہ لڑائیاں اثر ڈالتی ہیں، اس طرح کے بچے تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور والدین سے بات کرتے بھی ڈرتے ہیں۔
والدین کی لڑائیاں یا آپس میں ایک دوسرے سے سخت لہجے میں بات کرنا بچوں کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑائی کے بعد والدین غصے میں ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کم کردیتے ہیں۔
گھروں میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو حساس ہوں، اور بہت زیادہ گھل مل کر نہیں رہتے، ایسے بچوں کی شخصیت پر والدین کی لڑائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
اس حوالے سے ماہر نفسیات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نسرین بانو نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر والدین میں لڑائی ہو تو کم از کم بچوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کریں، اور خود پر کنٹرول رکھیں۔
ڈاکٹر نسرین بانو کا کہنا تھا کہ بہتر طریقہ یہی ہے والدین کسی بھی ایشو پر بچوں کے سامنے بات کرنے اور تکرار سے گریز کریں۔