تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

کرونا وائرس سے جسم کو ایک اور تباہ کن نقصان سامنے آگیا

کرونا وائرس کے انسانی جسم پر تباہ کن اثرات کے بارے میں تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

کئی ماہ سے دنیا بھر کے طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بنا ہوا تھا جسے سائلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

اب ایک تحقیق میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ آخر کیوں کووڈ کے متعدد مریضوں کے خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے چاہے انہیں اسپتال میں داخل ہونا نہ بھی پڑے۔

کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں آکسیجن کی کمی کی سطح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے ہمارا خیال تھا کہ کووڈ 19 سے خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

اس کی جانچ پڑتال کے دوران محققین نے کووڈ 19 کے 128 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔

ان میں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے اور آئی سی یو میں داخل ہونے والے افراد میں سات ایسے مریض بھی تھے جن میں بیماری کی شدت معتدل تھی مگر انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا جبکہ کچھ ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور انہیں چند گھنٹوں کے لیے اسپتال جانا پڑا۔

ماہرین نے دریافت کیا کہ بیماری کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ خون کے ناپختہ سرخ خلیات، دوران خون میں بھرنے لگتے ہیں، کئی بار تو ان کی تعداد مجموعی خلیات کے 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں صحت مند افراد کے خون میں ان ناپختہ خلیات کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ خلیات بون میرو میں رہتے ہیں اور خون کی گردش میں نظر نہیں آتے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس ان خلیات کے ماخذ پر اثرانداز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون میں ان ناپختہ خلیات کی تعداد نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ناپختہ خلیات آکسیجن فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف میچور خلیات کرتے ہیں، ان ناپختہ خلیات کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

وائرس کے حملے سے یہ خلیات تباہ ہوتے ہیں اور جسم کی دوران خون سے آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

محققین نے کہا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس کے ساتھ 2 اہم نتائج کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ ناپختہ خون کے سرخ خلیات وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور جب وائرس ان کو ختم کرتا ہے تو جسم آکسیجن کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مزید ایسے خلیات بون میرو سے خارج کرتا ہے، مگر وہ بھی وائرس کا ہدف بن جاتے ہیں۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خون کے یہ سرخ خلیات ایسے مدافعتی خلیات کو دبا دیتے ہیں جو اینٹی باڈیز بناتے ہیں اور وہ وائرس کے خلاف ٹی سیلز کی مدافعت بھی کچلتے ہیں، جس سے صورتحال بدتر ہوجاتی ہے۔

آسان الفاظ میں خون میں ان سرخ خلیات کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل اتنا ہی کمزور ہوگا۔

Comments

- Advertisement -