اردو زبان و ادب میں پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی کو ان کی تصنیف اردو تنقید کا ارتقاء نے بے مثال شہرت دی، لیکن یہی ایک کتاب نہیں بلکہ متعدد اصنافِ ادب میں ان کی کتابیں ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ وہ نقاد بھی تھے، جیّد محقق، خاکہ نویس اور سفر نامہ نگار بھی۔ لیکن ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے اور انھیں صفِ اوّل کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
آج ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے اور اس مناسبت سے ہم ان پر بھیّا کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس سے ان کی شخصیت ہم پر کھلتی ہے۔ "وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ ان کی نیکی، ہمدردی، خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے۔ دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔ آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلۂ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔ وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلو عریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۴۴ء کا دور تھا۔”
ڈاکٹر صاحب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے پر پاکستان آئے تھے اور یہاں لاہور میں اورینٹل کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ گیارہ سال یہاں گزارنے کے بعد ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان ان کے سامنے آئے۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔ ۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے اور ۱۹۸۰ء میں ان کی ملازمت ختم ہوئی۔
ان کا سنہ پیدائش 14 اگست 1920ء تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خاندانی نام عبادت یار خان رکھا گیا اور اردو ادب میں انھوں نے عبادت بریلوی کے نام سے پہچان بنائی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب عبادت بریلوی کو ادب کا شوق ہوا تو مطالعہ شروع کیا اور پھر تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ انھیں کئی بڑے ادیبوں اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے علمی و تحقیقی کام شروع کرنے والے عبادت بریلوی کی تصانیف میں غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید’ کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے جن میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے علاوہ ان کی ایک آپ بیتی بعنوان یادِ عہدِ رفتہ شامل ہیں۔ یہ کتابیں عبادت بریلوی کی کئی سال کی محنت، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہیں اور انھیں اردو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1998ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔