تاریخ کے اوراق میں عالمِ اسلام کی قابل و معتبر علمی و ادبی شخصیات اور دینی خدمات کے لیے پہچانے جانے والے ناموں میں ابن الفُوَطی بھی شامل ہیں۔ وہ ایک محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ مشہور ہوئے۔
ابن الفوطی کو اکثر ابن الصابونی کے نام سے بھی لکھا اور یاد کیا جاتا ہے جن کی تصنیف مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب بہت مشہور ہوئی۔ صدیوں پہلے عالمِ اسلام میں اپنے علم و فضل کے سبب پہچان بنانے والے ابن الفوطی کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 1244ء میں پیدا ہوئے تھے۔ محققین کے مطابق ابن الفوطی نے 1323ء میں آج ہی کے روز وفات پائی۔ ان کا نام عبد الرّزاق بن احمد بن محمد الحنبلی تھا۔ ان کی کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدّین، ابن الفُوَطِی اور ابن الصابونی ہے۔ ابن الفوطی اپنے معاصرین میں کمال الدّین ابنُ الصابونی کے نام سے بھی معروف تھے۔ ابن الفُوطی دراصل ان کی وہ نسبت ہے جو انھیں ان کے نانا کے دھاری دار کپڑے کے کاروبار کی وجہ سے ملی۔
ابن الفوطی اپنے دور کے دارُالخلافہ بغداد کے علاقہ دربُ القواس میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت آخری عباسی خلیفہ المستعصم باللہ مسند نشیں تھا۔ ابن الفوطی نے اپنے زمانے کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور قرآن حفظ کیا۔ بغداد، اس وقت علماء و مشائخ سے بھرا ہوا تھا اور انہی جیّد شخصیات اور ان کے نامی گرامی شاگردوں سے ابن الفوطی نے بھی علم حاصل کیا۔ ابن الفوطی نے سقوطِ بغداد دیکھا اور اس وقت ان کی عمر 14 برس تھی۔ بعد میں خواجہ نصیر الدین طوسی نے ابن الفُوطی کو اپنے سایۂ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں انھوں نے منطق، فلسفہ، علمِ نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابن الفُوطی نے عربی اور فارسی میں شعر گوئی کا فن اور خواجہ نصیر الدّین طوسی سے علمِ نجوم سیکھا۔ اس علم کے ساتھ غور و فکر کی عادت اور مشاہدہ نے انھیں کائنات اور اس سے متعلق بہت کچھ سمجھنے کا موقع دیا، ابن الفوطی کی تصانیف میں سیاحت کے اشارے ملتے ہیں جیسا کہ 1282ء میں وہ حلہ اور کوفہ میں تھے جب کہ 1301ء میں سلماس اور 1305ء میں وہ ہمدان میں موجود تھے۔ 1306ء میں وہ ایران پہنچے اور 1307ء میں تبریز پہنچے۔ اِن اسفار کا قصد غالباً تاریخی معلومات فراہم کرنے کے لیے تھا۔ 1304ء اور 1305ء کے وسطی زمانے میں وہ سلطنت ایل خانی کے ایک حکمران کے دربار سے وابستہ رہے اور تین سال تک وہ سلطنت ایل خانی کے مقبوضات میں سرگرداں رہے۔ 1310ء میں وہ ایل خانی دارالحکومت سلطانیہ میں مقیم تھے۔ 1312ء میں ان کے بغداد میں موجود ہونے کا پتا چلتا ہے۔ اپنے اسی علمی ذوق و شوق کے سبب 1271ء میں ابن الفوطی رصد گاہ مراغہ کے کتب خانے کے خازن و مہتمم مقرر ہو گئے۔ وہاں انھیں خزانۂ علم سے خوب استفادہ کرنے کا وقت ملا۔ ایل خانی حکم ران اباقا خان کے عہدِ سلطنت میں وہ بغداد روانہ ہوئے اور بغداد میں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کے نگران مقرر ہوئے۔ یہاں ابن الفوطی اپنی وفات تک خدمات انجام دیتے رہے۔
محققین کے مطابق ابن الفُوطی کی تالیف کردہ کتب اور ان کی تصانیف کی تعداد 83 تک ہوسکتی ہے، لیکن افسوس کہ ان میں سے بہت کم کتب کے نسخے اور کچھ حصّے دست یاب ہوسکے ہیں۔