اتوار, مئی 11, 2025
اشتہار

ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کو اپنے سفرنامہ کی بدولت دنیا بھر میں شہرت ملی

اشتہار

حیرت انگیز

عالمِ اسلام کی علم و فضل میں ممتاز، فنونِ لطیفہ، سائنس اور عمرانی علوم میں یگانہ شخصیات کی فہرست میں ابنِ جبیر بھی شامل ہیں۔ ابنِ جبیر 1217ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ دنیا انھیں ایک سیاح اور جغرافیہ نگار کے طور پر جانتی ہے۔

قدیم انسانی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں معلومات کا ایک ذریعہ اور بڑا مآخذ ہم سے قبل گزرنے والے اہلِ قلم کی تصانیف بھی ہیں۔ انھوں‌ نے سفر نامے، تذکرے، آپ بیتیوں اور روزنامچوں کی صورت میں بالخصوص ماقبل اور خود اپنے عہد کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ بطور سیاح ابنِ جبیر نے بھی بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات اپنے سفر ناموں کے ذریعے ہم تک پہنچائے ہیں۔ سیاح اور جغرافیہ نگار ابنِ جبیر نے اپنے مشاہدات اور تجربات رقم کرتے ہوئے اپنی غور و فکر کی عادت کی بنیاد پر کئی قابلِ ذکر اور دل چسپ واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے تھے۔ یہ کسی بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسکندریہ اپنے زمانے میں اقتصادی اور تجارتی اہمیت کا حامل شہر تھا۔

ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ قرونِ وسطیٰ کی اس علمی شخصیت کا سنہ پیدائش مؤرخین نے 1145ء لکھا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا تعلق عرب گھرانے سے تھا۔ ان کا قبیلہ بنو کنانہ تھا۔ والد سرکاری ملازم تھے جنھوں نے ابنِ جبیر کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا۔

سفرنامۂ ابنِ جبیر کے عنوان سے اُن کی مشہور تصنیف آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کی گئی تھی۔ ابنِ جبیر نے اپنے سفرِ حج کے دوران شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں بھی قیام کیا اور وہاں کے حالات بھی اپنے سفرنامے میں رقم کیے۔ اس کتاب میں انھوں نے حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی شامل کیے ہیں۔ ابنِ جبیر نے مختلف ممالک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ وہاں کے مذہب، خواص و عوام کے عقائد اور لوگوں کے رسم و رواج کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں ہے جس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ابنِ جبیر کے اس سفرنامہ کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔

ابنِ جبیر کے دور میں بھی مکّہ اور مدینہ کے بعد اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تہذیب و ثقافت کے بڑے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اسی اہمیت کے پیشِ نظر مسلمان سیّاحوں کی اکثریت ان ممالک کا رخ کرتی تھی اور ان کا ذکر اپنی کتابوں میں کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ محققین کے مطابق ابنِ جبیر نے 1183ء میں فروری کے مہینے میں ہسپانیہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کی اور پھر دو برس کا عرصہ سیّاحت میں گزارا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں