تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

1958 میں‌ منظرِ عام پر آنے والا "وبائی ہیجان”

دنیا کا کوئی ملک کرونا کی وبا سے محفوظ نہیں‌ ہے۔ جو ممالک اس وبا کی شدّت میں‌ کمی کے بعد لاک ڈاؤن ختم کرچکے تھے، وہ کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی کے سبب دوبارہ بندشِ‌عامّہ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور ساتھ ہی اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوششیں‌ بھی جاری ہیں۔

جن دنوں‌ کرونا وائرس اور اس وبا کے پھیلنے کا شور نیا نیا تھا تو اس سے متعلق کئی مفروضے اور تصورات کے ساتھ من گھڑت اور من چاہی باتیں‌ بھی سنی گئیں۔ انہی دنوں‌ چند فلموں اور ایسے ناولوں کا بھی خوب چرچا ہوا جن کی کہانی کسی ایسے ہی پُراسرار وائرس اور ویکسین سے متعلق تھی، لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہرہ آفاق ناول نگار ابنِ صفی بھی نصف صدی قبل ایسے ہی پُراسرار وائرس اور وبا کی کہانی لکھ چکے ہیں۔

ابنِ صفی کے اس ناول کا نام تھا "وبائی ہیجان” جو 1958 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ ناول عالمی طاقتوں کے مابین حیاتیاتی جنگ کے تصور پر مبنی ہے جس میں‌ بیکٹیریا اور وائرس کے ذریعے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ابنِ صفی کے اس ناول کا ایک پیرا ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

ابنِ صفی نے اس جاسوسی ناول میں‌ ایک بیکٹیریا کے ذریعے عام لوگوں‌ کو بیمار ہوتا اور خوف زدہ دکھایا ہے جس سے کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس وبا کا تدارک کرنے کے لیے مختلف ممالک کے طبی مشن حرکت میں‌ آتے ہیں، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایک موقع پر ناول کے اہم کردار کیپٹن حمید سے گفتگو کرتے ہوئے دوسرا کردار ڈاکٹر سانگلو کہتا ہے:

"وبائی امراض کے جراثیم مختلف ذرایع سے ہمارے سسٹم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یا تو وہ فضا میں موجود ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچتے ہیں یا اس پانی میں ان کا وجود ہوتا ہے جسے ہم پیتے ہیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم نے سارے ذرایع چھان مارے، لیکن ہمیں نئے قسم کے جراثیم کہیں بھی نہ ملے۔ ایک دن میں تجربہ گاہ میں سلائڈ پر مشتبہ پانی کی چند بوندیں ڈال کر خرد بین سے ان کا جائزہ لے رہا تھا کہ کسی نے مذاقاً اس پر ایک چٹکی نمک ڈال دیا۔”

ان کرداروں‌ کی گفتگو جاری رہتی ہے اور ڈاکٹر بتاتا ہے:
"شاید اس نے ایسا کرتے وقت ڈاکٹر گوہن پر پھبتی بھی کسی تھی، لیکن کیپٹن مجھے تو خدا کی قدرت کا تماشہ نظر آگیا۔ نمک کی چٹکی پڑتے ہی لاتعداد نارنجی رنگ کے ذرّات سے نظر آنے لگے، لیکن یہ غیر متحرک تھے، بس پھر یہیں سے ہمارے کام کا آغاز ہوا۔ نمک نہ صرف ان کے لیے سم قاتل ہے بلکہ ان کی رنگت بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ رنگت تبدیل ہونے سے قبل انھیں خرد بین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یعنی آپ انھیں صرف مردہ حالت میں دیکھ سکتے ہیں، اگر یہ زندہ ہوں تو دنیا کی طاقت ور ترین خرد بین سے بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔”

کہانی آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گوہن نام کا ایک مغربی ڈاکٹر مسیحا بن کر آیا ہے اور وبائی مرض سے نجات کے لیے چائے میں نمک ملا کر پینے کا نسخہ تجویز کررہا ہے۔ یہ علاج کارگر ثابت ہوتا ہے اور گوہن راتوں رات مقبول ہو جاتا ہے۔ لوگ خوف سے باہر نکلنے لگتے ہیں اور بیماری کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

اس ناول کا ہیرو کرنل فریدی بعد میں اس سازش سے پردہ اٹھاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور بیماری پھیلانے والا جرثوما لیبارٹری میں‌ تیار کیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -