مظلوم فلسطینیوں کی آواز بننے والے آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کی آواز دبانے پر کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کا دُہرا معیار دنیا کے سامنے آ گیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کی آواز دبا دی اور انہیں بیٹ اور جوتے پر امن کا نشان فاختہ تک لگانے کی اجازت نہ دی جس پر آئی سی سی کا دہرا معیار کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔
دنیا کو یاد آ گیا کہ یہی آئی سی سی تھا جب مارچ 2019 میں بھارتی کرکٹر ایم ایس دھونی نے پوری ٹیم کو فوجی ٹوپیاں بانٹیں تھیں اور پوری انڈین ٹیم نے یہ فوجی کیپ پہن کر میچ کھیلا تھا تاہم اس وقت اصول پسند آئی سی سی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھا رہا۔
ورلڈ کپ 2019 میں دھونی نے فوجی نشان والے گلوز پہنے۔ زیادہ دور نہ جائیں حال ہی میں بھارت میں ختم ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی جنوبی افریقی کرکٹر مہاراج کے بیٹ پر لگا ’’اوم‘‘ کا اسٹیکر بھی آئی سی سی کو نظر نہ آیا، کیا یہ مذہبی معاملہ نہیں تھا؟
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 2018 میں انگلینڈ کے میدانوں میں ہم جنس پرستی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی جس میں خود آئی سی سی بھی حصہ بنا۔
تاہم دوسری جانب آئی سی سی نے عثمان خواجہ کو پرتھ ٹیسٹ میں جوتوں پر فلسطین کے لیے پیغام لکھنے سے روکا اور سیاہ پٹنی باندھنے پر سخت تنبیہہ کر ڈالی اور اب بلے اور جوتوں پر امن کی علامت فاختہ کا نشان لگانے سے بھی روک دیا۔
فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ، آئی سی سی پھر عثمان خواجہ کے آگے دیوار بن گئی
فلسطین کے معاملے پر دہرا معیار اختیار کرنے پر سوال اٹھ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت پر آئی سی سی کو مرچیں کیوں لگ رہی ہیں اور آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کو انسانی حقوق کا پیغام دینے سے کیوں روکا گیا؟