اسلام آباد : آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں چیف جسٹس نے سینیٹر اعظم سواتی سے کل اپنی اوربچوں کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد اور متاثرہ خاندان کو طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کے احکامات پر آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا گزشتہ روزوزیراطلاعات نےایک بیان دیا ہے، فوادچوہدری نے وہ بیان دیا، جس کاان کوعلم بھی نہیں تھا،فواد چوہدری کا بیان غیرمناسب تھا، کیوں نہ وزیر اطلاعات کو بھی بلالیا جائے۔
چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ وزیرکیسےکہہ سکتا ہے چیف ایگزیکٹو منسٹر کا فون سننےکے ہم پابند ہیں، کل مقدمےکیلئےکوئی وزیرفون کرے اور کہے ہم فون سننے کے پابند ہیں، کیوں نہ ایسی بات کرنے والے منسٹر کو توہین عدالت میں جیل بھیج دیں، فواد چوہدری کو ابھی بلائیں ان کے آنے کے بعد کیس سنیں گے۔
فواد چوہدری کو ابھی بلائیں ان کے آنے کے بعد کیس سنیں گے
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کوئی شک نہیں وزیراعظم ملک کےچیف ایگزیکٹوہیں، یہ بات درست ہوگی جان محمد نگراں حکومت کےتعینات کردہ آئی جی ہیں۔
عدالت نے وزیراطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کوطلب کرلیا۔
سپریم کورٹ نےفیصل چوہدری کی وضاحت مستردکردی، چیف جسٹس نے کہا جس نےبیان دیا اسی کی زبانی وضاحت لیں گے۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سجادعلی شاہ نے استفسار کیا آئی جی اسلام آباد پر کیا الزام ہے؟ چیف جسٹس نے کہا یہ سب طوطاکہانی ہےجوسنائی جا رہی ہے، وزیراعظم کے پاس وزیر داخلہ کا بھی قلمدان ہے، جو دل میں آتا ہے ویسا کرتےہیں، یہ دل والی باتیں اب ختم ہوگئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ایک نجی مسئلے پر اعظم سواتی نے ادھم مچادیا، کیاوزیرایسےہوتےہیں، فوادچوہدری نے کہا ایگزیکٹو نے حکومت چلانی ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت؟ فوادچوہدری ساڑھے11بجےآکربتائیں یہ طعنہ کس کودیا۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کورٹ کے احترام میں نہ کمی آئی ہےنہ آئےگی ، میرےبھائی فوادچوہدری وکیل اورعدالتوں کااحترام کرتےہیں، اپنےبھائی صاحب کوبلالیں،
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز نے کہا کہاجارہا ہے کیاوزیراعظم ایک پولیس افسرکوبھی نہیں ہٹاسکتا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ آئین کی کتاب دیکھ رہےہیں آپ، اس آئین کےتحت ایک وزیراعظم گھرجاچکےہیں، فوادچوہدری سپریم کورٹ کیخلاف بیان دےرہےہیں، یہ حکومت کے ترجمان ہیں۔
چیف جسٹس کےطلب کرنے پر فوادچوہدری سپریم کورٹ میں پیش
آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں چیف جسٹس کےطلب کرنے پر فوادچوہدری سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ، فوادچوہدری نے کہا عدالت کی کبھی توہین کی نہ کبھی ایسا سوچاہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا بیوروکریسی نے حکمرانی نہیں کرنی آپ نے ہی کرنی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا اس وقت بیوروکریسی سےمتعلق مسائل آرہے ہیں، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بیان کوایسےپڑھ رہےہیں جیسے عدالت کی طرف پوائنٹ آؤٹ کیا ، وزیراطلاعات کا کہنا تھا محترم عدلیہ کا احترام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہاں ہیں وہ وزیر جو کہہ رہے تھے ، میں خودسپریم کورٹ آؤں گا اور معاملے پر وضاحت دوں گا، وہ کل شام سے شور کررہے تھے، ایسے ہی شاہد مسعود نے بھی شور ڈالا تھا۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد کہاں ہیں کیا انہیں بلوایا نہیں گیا، اٹارنی جنرل نے بتایا اس وقت ملک میں امن وامان کی صورتحال کا تھوڑا مسئلہ ہے، آئی جی صاحب بھی وہی مصروف ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا چلیں معاملے کو ہم پرسوں پر رکھ لیتے ہیں۔
سینیٹر اعظم سواتی عدالت میں پیش
آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پرازخودنوٹس کیس میں سینیٹر اعظم سواتی عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہاں تھےآپ بڑا شور مچارہے تھےکہ عدالت میں وضاحت دوں گا، غریب لوگوں کو اندر کرا دیا آپ نے،انکوائری کرائیں گے۔
چیف جسٹس نےسینیٹر اعظم سواتی سے کل اپنی اوربچوں کی جائیداد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ساری باتیں ٹی وی پر کرنی تھیں،کہاں آئے عدالت؟ وہ بھینس کدھر ہے ؟واپس کی یا ابھی بند کی ہوئی ہے؟
اعظم سواتی نے اپنے مؤقف میں کہا تمام افسران سےبات کی مگرمیری شکایت نہیں سنی گئی، مجھے کہا گیا آئی جی سے بات کریں، مجھے دھمکیاں دی گئیں۔
چیف جسٹس کااستفسار کیا قتل کی دھمکی دی گئی؟جس پر اعظم سواتی نے مجھےکہاگیاآپ کے گھرکوبم سے اڑا دیں گے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیا وزیر کایہی کام ہوتا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف صرف قانون میں رکھنے کے لیے نہیں، ہم اس آرٹیکل کو دیکھیں گے، جب تک تفتیش مکمل نہ ہوآپ امریکا نہیں جاسکتے۔
جسٹس ثاقب نثار نے آئندہ سماعت پر سپرنٹنڈنٹ جیل سے خاندان کی قید کا ریکارڈ ، آئی جی اسلام آباد اور متاثرہ خاندان کو طلب کرلیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے عدالت نے آج سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو تبادلے سےمتعلق تفصیلی جواب جمع کرانے کاحکم دے رکھا ہے۔
گذشتہ روز شہریار آفریدی اور اعظم سواتی نے اٹارنی جنرل سے مشاورت کی تھی ، اعظم سواتی نے راضی نامے کی کاپی اور وزارت داخلہ نے چارج سنبھالنے کے احکامات کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کی۔
مزید پڑھیں : وزیراعظم ہی آئی جی کو نہیں ہٹا سکتا تو پھر الیکشن کا کیا فائدہ ہے، فواد چوہدری
اس سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق کہا تھا کہ مسئلہ یہ نہیں اعظم سواتی کا معاملہ ٹھیک ہے یا نہیں، یہ کیسے ممکن ہے آئی جی اسلام آباد وفاقی وزیر کا فون نہ اٹھائیں، وفاقی وزیر اسلام آباد کے اسکولوں میں منشیات سے متعلق بتارہےتھے۔
وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہی آئی جی کونہیں ہٹاسکتاتوپھرالیکشن کاکیافائدہ ہے، بیوروکریسی میں کچھ افسران پالیسی فالو نہیں کررہے، وزیراعظم اختیارات رکھتے ہیں اور اس کے استعمال میں وہ حق بجانب ہیں، ممکن نہیں کہ آئی جی منتخب نمائندوں کو گھاس نہ ڈالیں۔
دریں اثنا اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ آئی جی اسلام آباد کا دو بار سینیٹر اعظم سواتی سے رابطہ ہوا تھا۔
سینیٹر اعظم سواتی کے آئی جی اسلام آباد سے رابطے کے بعد ایس ایس پی امین بخاری کو اعظم سواتی کے پاس بھیجا گیا تھا، ایس ایس پی امین بخاری دو بار جمعرات اور جمعہ کو اعظم سواتی کے پاس گئے۔
دوسری جانب وزارت داخلہ نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وطن واپس بلالیا اور مراسلہ جاری کردیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ جان محمد دو نومبرتک ملائشیا میں کورس پرہیں۔انہیں کورس چھوڑکرواپس آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے گزشتہ سماعت میںچیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہونے والا آئی جی اسلام آباد کےتبادلےکا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا اور غیرقانونی تبادلے سے متعلق جواب طلب کیا تھا۔
مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے حکومتی احکامات معطل کردیے
اٹارنی جنرل نے آئی جی کی تبدیلی کی سمری عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ تبادلے کی اصل وجہ کیا ہے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ خود عدالت کو حقائق بتائیں۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ آئی جی کے تبادلے کا مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، وزیراعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کو کہا کہ کیوں نہ آپ کا بھی تبادلہ کر دیا جائے، کیا آپ کو کھلا اختیار ہے جو چاہیں کریں، وزیراعظم سے ہدایت لے کر جواب داخل کریں، کیا یہ نیا پاکستان آپ بنا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایک وزیر کی شکایات پر آئی جی کو تبدیل کیا گیا، آئی جی کی تبدیلی وزارت داخلہ کا کام تھا، کیا ذاتی خواہشات سے تبادلے ہوتے ہیں، کیا حکومت اس طرح افسران کے تبادلے کرتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو زبانی حکم دینے کی کیا جلدی تھی، کیا حکومت زبانی احکامات پر چل رہی ہے، پاکستان اس طرح نہیں چلے گا، جس کا جو دل کرے اپنی مرضی چلائے، ایسا نہیں ہوگا، اب پاکستان قانون کے مطابق چلنا ہے، زبردستی کے احکامات نہیں چلیں گے، وزیراعظم نے زبانی کہا اور تبادلہ کر دیا گیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ سیاسی وجوہات پر آئی جی جیسے افسر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، ریاستی اداروں کو اس طرح کمزور اور ذلیل نہیں ہونے دیں گے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔