اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی، وکلاء نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کرکے کی استدعا کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کےچیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری نے سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ہمیں ملا ہے تو وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ رکھا تھا کہ پہلے دائرہ اختیار دیکھا جائے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ کھوسہ صاحب ماتحت عدلیہ ہے غلطی ہوئی ہےلیکن اعتماد دینےکی ضرورت ہے ، سپریم کورٹ کا آرڈر ہمیں ملا ہے اس میں آج کی کاروائی کا کہا ہے۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی درخواست پردلائل دوں گا، سیشن جج نے اس عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا تھا، خواجہ حارث پیش نہیں ہو رہے، ان کے منشی کو اغوا کیا گیا تھا، خواجہ حارث کا اس متعلق بیان حلفی دےرہا ہوں، سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی 3گراؤنڈز پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالت نے دائرہ اختیار کو طے کرنا ہے، کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسڑکٹ الیکشن کمشنرکواتھارٹی دےرہا ہے، ٹرائل کورٹ میں سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔
لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کےمطابق کمپلینٹ دائرکرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کمپلینٹ دائر کرنے کیلئے اپنے اختیارات تفویض کر سکتا ہے، یہ کمپلینٹ الیکشن کمیشن سیکرٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے ذریعے دائر کی، الیکشن کمیشن کا سیکرٹری الیکشن کمیشن نہیں، وہ کمپلینٹ دائرکرنےکی اجازت نہیں دےسکتا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ابھی تک کیس کے قابل سماعت ہونےکا فیصلہ بھی ہونا ہے ،کیس کی آتھرائزیشن کےحوالےسےبھی ہم نے نکات اٹھائے، کمیشن کے بجائے سیکرٹری الیکشن کمیشن نےشکایت بھجوائی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تعریف میں چیف اور ممبرز الیکشن کمیشن ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ نے مختلف عدالتوں کے فیصلے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور چار ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپلینٹ کا کوئی اجازت نامہ موجود نہیں، وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے، جس پروکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہہ رہےہیں کمپلینٹ دائر کرنےکااجازت نامہ قانون کےمطابق نہیں؟ تو سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جی بالکل وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کوبھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اسلام آبادہائیکورٹ نےٹرائل کورٹ فیصلے کیخلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کوبھیجی، ٹرائل کورٹ فیصلوں پر ہم نظر ثانی میں آئے اور آپ نے قبول بھی کرلئے، آپ کے آرڈر کو دیکھتے ہوئے پھر بھی ڈیسائڈ نہیں کیاگیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو8سوالات پردوبارہ فیصلےکا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے سوالات کا جواب دیئے بغیر پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا، سپریم کورٹ نےکہاٹرائل کورٹ نےہائیکورٹ فیصلےکوبھی نہیں مانا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ نے تین سال کی سزا سنائی، صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی چھ ماہ سزا معاف کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی 6ماہ کی سزا معاف کی جا چکی۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے ٹرائل کورٹ میں جاری سماعتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کوکیس قابل سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کاحکم دیا، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، ہمارا اعتراض یہ بھی ہے الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ سیشن عدالت براہ راست کمپلینٹ قابل سماعت ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی،مجسٹریٹ نے کیس اسکروٹنی کر کےسیشن عدالت کوٹرائل کیلئے بھیجنا ہوتا ہے، ہم سیشن کورٹ کی جانب سے ٹرائل کرنےکو تو چیلنج ہی نہیں کر رہے، ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرے گی لیکن براہ راست نہیں کر سکتی۔
لطیف کھوسہ کی معاون خاتون وکیل نے قانونی نکات پڑھناشروع کر دیئے اور لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کی گزشتہ روز کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کےباعث برقرارنہیں رہ سکتا، استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینےکی اپیل پر دلائل کیلئےدوبارہ عدالت کےسامنےآئیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پرفیصلہ دیا گیا؟ تو سردار لطیف کھوسہ نے بتایا کہ بالکل نہیں جو فیصلہ انہوں نے دیا وہ ہائیکورٹ کالعدم قراردے چکی، عدالت سےیہ استدعا کروں گا یہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جائے ،سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی ہے میں اس پر نہیں جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نےوجوہات دی ہیں ؟ تو وکیل نے بتایا کہ جی ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں ، سیشن عدالت کے فیصلےمیں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہائیکورٹ کے اٹھائے گئے نکات کے جوابات حتمی فیصلے میں موجود ہیں؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں نہیں نہیں،ایڈیشنل سیشن جج نے مکمل طور پر آپکےاحکامات کونظر اندازکیا، ہم نے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست دی، عدالت نے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دے دیا، گواہان کی فہرست کی جانچ کئے بغیر انہوں نے مسترد کردی، معذرت کیساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلےسے نہیں روکا، جب ہائیکورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہو توہمیشہ ٹرائل کورٹ کوروکا جاتا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کومسترد کیا؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں وہ آرڈر پڑھ دیتا ہوں، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں،عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی، وکیل دفاع گواہان کوکیس سےمتعلقہ ثابت کرنےمیں ناکام رہے، اس بنیاد پرٹرائل عدالت نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجودنہیں، گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرناچاہتےہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں،میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، ملزم کو دفاع میں گواہ پیش کرنے سےروکا ہی نہیں جا سکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کررہا ہے آپ کیسے اسے روک سکتے ہیں، 4گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40تو نہیں تھے۔
انھوں نے دلائل میں مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کےاندرکمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی،یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے،4 اگست کو آپ کا آرڈر آیا، آپ نےقابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ 5تاریخ کوآپ کا آرڈرسپریم کورٹ چیلنج کردیا،خواجہ حارث کے کلرک کےاغواکی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بجکر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں، 12بجکر 30 منٹ پر جج صاحب نےشارٹ آرڈر سناتے ہوئے 3سال سزا سنا دی اور 12بجکر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنےپہنچ گئی، فیصلے کے 5منٹ بعد گرفتاری کے لیے پہنچ گئے، مجھے چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا میرے گھر کے دروازے توڑے، گھرکے واش روم کے دروازے توڑے گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز سے استفسار کیا امجد صاحب کیا آپ نے کچھ کہنا ہے؟ تو امجد پرویز نے کہا کہ کھوسہ صاحب میرے نکاح کے گواہ بھی ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو کھوسہ صاحب اہم شخصیت ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ لگ گئے۔
الیکشن کمیشن کےوکیل امجدپرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حق دفاع سےمتعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ہائیکورٹ کے سنگل بینچ میں زیرسماعت ہے، نوٹس جاری کئےجانےکیخلاف چیئرمین پی ٹی کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ اورسنگل بینچ میں زیر سماعت کی وجہ سےیہ بینچ معاملے پرکوئی آبزرویشن نہیں دےسکتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے یہ بینچ تو سپریم کورٹ اورسنگل بینچ کےدرمیان سینڈوچ ہوگیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس ریٹرن کاکیس ہی نہیں ہے، یہ غلط ڈیکلریشن کا کیس ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نےکوئی جیولری یا گاڑی توڈکلیئر نہیں کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ریٹرن میں 4بکریاں مسلسل ظاہرکی جاتی رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزامعطلی کی درخواست پرسماعت کر رہی ہے،سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹ پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گےکہ ملزم کو حق دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نےچیئرمین پی ٹی آئی کےگواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، گوشوارے تواپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں، یہ تو کلائنٹ نےبتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے،چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس 3سال تک کوئی جیولری یاموٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے مجھے تو کوئی اپنے ریٹرن فائل کرنے کاکہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا، ان کے3 سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا۔دوسرادورانیےوالا ،تیسرااتھارٹی والا، ان کایہ کہنا ہےاگر چےاسٹےنہیں تھا اس کےباوجودنوٹس تو اس عدالت نےکررکھا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ ان کا سوال یہ بھی ہےان کوآخری دن سنانہیں گیاان کاحق دفاع بھی ختم ہوا، سپریم کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا تھا سنگل بینچ میں بھی ان کی پٹیشن زیر التوا تھی، اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سےتو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اگر چے لیگل کمیونٹی سےہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نےچیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر اعتراض اٹھادئیے اور کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل میں اسٹیٹ کوفریق نہیں بنایا گیا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 190 کےتحت یہ اپیل دائر کی گئی ، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے ابھی تو مرکزی اپیل کا نہیں سزا معطلی کامعاملہ ہے۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس وجہ سے درخواست خارج کردیں، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس جاری ہونا چاہیے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کردی جائے ، میرا مدع یہ ہے کم از کم اسٹیٹ کو نوٹس کرکے شنوائی کا موقع دیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ، وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے استدعا کی کہ کل جمعہ ہے سماعت نہ رکھیں، یہ پھر خود ہی کہتے ہیں چھٹی والے دن عدالت کھل گئی، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کل ڈویژن بینچ نہیں ہےلیکن ہم کیس سن لیں گے۔