تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

12 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی سلور اسکرین کے مشہور ولن الیاس کاشمیری نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب اداکار تھے جنھیں پنجابی فلموں میں ان کے کرداروں کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

فلم نگری سے دور ہو جانے کے بعد مدّت ہوئی الیاس کاشمیری گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں اپنی ماضی کی زندگی پر پچھتاوا تھا۔ وہ اپنی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کو فلمی دنیا سے اپنی وابستگی اور رنگینیوں کا نتیجہ سمجھتے تھے۔

معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس کام یاب اداکار نے 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ مجموعی طور پر 547 فلموں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

یہ 1946ء کی بات ہے جب دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے۔ وہاں انھیں فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہجرت کرکے الیاس کاشمیری لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں ہیں۔

1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

اپنے وقت کے اس نام ور اداکار کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ان کا گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -