اسلام آباد : نئے قرض پروگرام کیلئے آئی ایم ایف کی نئی شرائط سامنے آگئیں ، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کواصلاحات پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی تفصیلی رپورٹ جاری کردی، جس میں کہا ہے کہ پاکستان کونئے پروگرام کےتحت میکرو اکنامک استحکام اور قابل عمل معاشی پالیسیوں کیلئےکام کرناہوگا۔
رپورٹ میں کہنا ہے کہ معاشی اصلاحات پر عمل درآمد اور نجی شعبہ کیلئے سازگار ماحول دینا ہوگا اور حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہوگا جبکہ حکومت کو ٹیکس آمدن بڑھانا ہو گی،اخراجات میں کمی کرنا ہو گی۔
تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 25-2024 سے 30-2029 کے درمیان شرح نمو 4 سے4.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے جبکہ اس دوران مہنگائی ساڑھے 9 سے ساڑھے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایکشن پلان تیار کرنا ہوگا، پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے معیار زندگی کم ہوا ہے، اس کی بنیادی وجہ کمزور پالیسیاں سرمایہ کاری میں کمی اور حکومتی اقدامات ہیں۔
آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کومضبوط معاشی پالیسیوں اور اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، پاکستان نےتعلیم اورصحت کےشعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی، تعلیم اورصحت میں سرمایہ کاری نہ کرنےکےباعث غربت میں کمی نہیں ہوئی، پاکستان میں غریب 40فیصدہیں،زیادہ پیداواری ملازمتوں کی قلت ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حکومت بااثرکاروباروں کو سبسڈی فراہم کرتی ہے جس سےمعاشی ترقی متاثر ہوئی، حکومتی اقدامات سےمسابقت متاثر ہوئی اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی اور انفرااسٹرکچر میں کم سرمایہ کاری کےباعث ملک موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوا۔
عالمی مالیاتی ادارے نے کہا کہ ماضی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کیساتھ طے اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا، گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی تجارت کا حصہ بننے کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے، اس کی وجہ سے پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکا اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سےبرآمدات میں علاقائی ممالک کی طرح اضافہ نہیں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کو دیگرعالمی مالیاتی اداروں سے 14ارب ڈالر کی فنانسنگ ملنے کی امید ہے، حکومت پرسیاسی عدم استحکام کے باعث اصلاحات اور ٹیکسوں میں کمی کا دباؤ رہے گا تاہم سیاسی کشیدگی سےمعاشی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت نے ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد کے برابر لانے پر اتفاق کیا، رواں مالی سال کیلئے 1723 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں تاہم رواں مالی سال کے بجٹ میں انکم ٹیکس میں اصلاحات سے 357 ارب اضافی حاصل ہوں گے۔
عالمی مالیاتی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس اصلاحات سے 286 ارب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے 413 ارب روپے اور کسٹمز ڈیوٹیز سے65 ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی جبکہ ود ہولڈنگ ٹیکسوں سے 240 ارب روپے کی وصولی ہو گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیکس کمپلائنس بہتر بنانے سے 157 ارب روپے اضافی آمدن ہو گی اور انتظامی اختیارات سے 250 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کی جائے گی۔
آئی ایم ایف نے زور دیا کہ نئے قرض پروگرام میں پاکستان کواصلاحات پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا، پاکستان کومعاشی ترقی کی شرح بڑھانے کے لیے کئی چیلنجز سمیت ادارہ جاتی اسٹرکچر میں بہتری کے لیےچیلنجز کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان حکومت کو پالیسیز میں تسلسل کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان میں سرکاری اداروں کی استعداد کار کم ہے، سرکاری اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلئے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، سرکاری کارپوریشنز کی اصلاحات پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا اور کاروبار کے لیے مساوی مواقع دینا ہوں گے۔
رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کم کرنے کیلئےبھرپورکوششیں کرنا ہوگی۔
عالمی مالیاتی ادارے نے بتایا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کا بہتر ہونا خوش آئند ہے، پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہوناحوصلہ افزا ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے تاہم غربت کی شرح کم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کو فروغ دینے سمیت تعلیم اورصحت پر توجہ دیناہوگی۔