اتوار, جولائی 6, 2025
اشتہار

فائرنگ و تشدد سے ثابت ہوا کہ پولیس نے وہی کیا جس کا حکم دیا گیا، ماڈل ٹاؤن رپورٹ

اشتہار

حیرت انگیز

پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر منتمج ہونے والے سانحے کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے جس کے لیے پنجاب حکومت ٹریبونلز آرڈینینس کے سیکشن 3 اور 5 کے تحت جسٹس باقر نجفی پر مشتمل ایک رکنی ٹریبونل قائم کی گئی تھی ایک رکنی ٹریبونل کو 11 معاون اہلکاروں کی خدمات حاصل تھیں.

باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں میڈیکل آفیسرز، پولیس افسران و اہلکار، عینی شاہدین کے بیانات، مختلف میڈیا کی جانب سے واقعے کی ویڈیوز و تصاویرز اور مختلف ایجنسیوں کی رپورٹ بھی منسلک ہے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا بیان حلفی بھی رپورٹ کا حصہ ہے.

شہباز شریف کا بیان حلفی

شہباز شریف کے 17 جون 2014 کو اپنے نمائندے کی طرف سے جمع کرائے گئے بیان حلفی میں کہا ہے کہ انہیں ٹیلی ویژن کے ذریعہ پولیس اور منہاج القرآن کے کارکنان کے درمیان تصادم کا علم ہوا جس پر انہوں نے اپنے سیکرٹری ڈاکٹر سید توقیر شاہ سے معلومات لیں تو سیکرٹیری توقیر شاہ نے بتایا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا فیصلہ رانا ثناٗاللہ نے کیا تھا۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے مایوسی کا اظہار کیا.

رانا ثناءاللہ کا بیان

صوبائی وزیر قانون نے اپنے بیان میں کہا کہ 16 جون 2014 کو صوبے میں امن وامان کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس میں ڈاکٹر طاہر القادری کے متوقع لانگ مارچ کے حوالے سے امور بھی زیر بحث آئے جس میں مارچ کی گذرگاہوں سے غیر قانونی تجاوزات اور رکاوٹوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم آپریشن کے دوران فائرنگ کے اختیارات نہیں دیئے گئے تھے.

رپورٹ کے اہم خدو خال

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے جس کا شاخسانہ وہ اجلاس ہے جس میں تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس عمل کے لیے عدالتی حکم کے باوجود ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کوئی قانونی رائے نہیں لی گئی.

وزیر اعلیٰ پنجاب صبح ساڑھے 10 بجے ماڈل ٹاؤن پہنچے جہاں انہیں بتایا گیا کہ صورتحال نازک ہے جس میں کئی شہری جاں بحق اور متعدد پولیس اہلکارزخمی ہو گئے ہیں جس پر شہباز شریف نے ٹربیونل بنا کر معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا.

ماڈل ٹاؤن میں عوام پر فائرنگ کس کےحکم پر ہوئی ؟ اس کا جواب دینے کو کوئی پولیس افسر تیار نہیں جس سے پولیس کے تعاون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور صاف نظر آتا ہے تمام اہلکار ٹربیونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں.

ٹربیونل کو سیکشن 11 پنجاب ٹربیونل آرڈننس 1959 کا اختیار نہ دینا نامناسب تھا اور ٹربیونل کو اختیارات نہ دینے سے لگتا ہے کہ حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی جس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ حکومت سچ کو سامنے لانے سے گریزاں ہے.

کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحے سے پہلے ڈی سی او اور آئی جی کی تبدیلی سے کئی سوال جنم لیتے ہیں جب کہ یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ شہباز شریف نے آپریشن روکنے احکامات نہیں دیے.

رانا ثناء اللہ اور ہوم سیکرٹیری نے اپنے بیان میں آپریشن روکنے سے متعلق نہیں کہا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہرکوئی ایک دوسرے کو قانون سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران نے قتل عام میں کھل کر حصہ لیا جس پر غصے سے بھرے مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس پر حکام کی لاپروائی سے ان کی معصومیت پرشک ہوتا ہے.

فائرنگ اور تشدد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے پولیس حکام نے وہ ہی کیا جس کا حکم دیا گیا جب کہ حکومت پنجاب نےعدالتی احکامات کے باوجود بیریئز ہٹانے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل سے رائے نہیں لی گئی.

مکمل رپورٹ پڑھنے کے لیے کلک کریں : باقر نجفی کمیشن رپورٹ

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں