اسلام آباد : ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں ملزمان نے جرم قبول کرنے سے انکار کردیا ، عدالت نے ایف آئی اے سے 19 مئی تک حتمی دلائل طلب کرلیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت میں عمران فاروق قتل سازش کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ، گرفتار ملزمان خالد شمیم، معظم اور محسن علی نے جیل میں حتمی بیانات ریکارڈ کرادیے۔
بیان میں ملزمان نے عمران فاروق قتل کیس کا جرم قبول کرنے سے انکار کردیا ، اعترافی بیان ریکارڈ کرانے والے خالد شمیم اورمحسن علی بیان سے مکر گئے، دونوں گرفتار ملزمان نے 5سال قبل مجسٹریٹ کواعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔
ایف آئی اے نے کہا کہ بانی متحدہ، افتخار حسین، انورمحمود اورکاشف خان اشتہاری ملزمان ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت نے اڈیالہ جیل میں ملزمان سے بیانات پر دستخط بھی لے لیے۔
عدالت نے ایف آئی اے سے 19 مئی تک حتمی دلائل طلب کرلیے اور ملزمان کے لیے جیل میں ویڈیو لنک انتظام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ملزمان جیل میں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں وکلاکے دلائل سن سکیں گے۔
خیال رہے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں عمران فاروق کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا ، جس میں کہا تھا کہ عمران فاروق کی موت چہرے اور سر پر زخموں کے باعث ہوئی۔
اس سے قبل ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ فاروق نے اپنے بیان میں انکشاف کیا تھا کہ میری اپنے شوہر کے قاتلوں سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے خود کو عمران فاروق کے چاہنے والے بتایا۔
واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔