ہفتہ, مئی 17, 2025
اشتہار

جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد اس وقت بین الاقوامی سرحد پر مکمل جب کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جزوی طور پر جنگ بندی ہے جب کہ سفارتی سطح پر تناؤ اور میڈیا کے محاذ پر کشیدگی برقرار ہے۔

7 مئی سے 10 مئی تک جھڑپوں اور پاکستان کی جانب سے بھرپور حملوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا ہے۔ جو لوگ 10 مئی کو صورت حال مانیٹر کر رہے ہوں گے انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے جنگ بندی کے اعلان سے قبل صبح ہونے والی میڈیا بریفنگ میں بھارتی مسلح افواج نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے ایک بھرپور حملے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی کہا کہ بھارتی مسلح افواج مزید کشیدگی نہیں چاہتی، اگر پاکستان بھی ایسا ہی کرے۔

اس پریس بریفنگ میں یہ الفاظ بھارتی فوج کی جانب سے اعتراف شکست ہی ہیں۔ اس میڈیا بریفنگ کی ویڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسے دیکھا اور اعتراف شکست کو سنا جاسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے ہاتھ کھڑے دینے کے بعد مودی حکومت کے پاس امریکا کی جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

بھارت کی سفارت کاری جنگ بندی تک محدود رہی جب کہ پاکستان نے اپنی سفارت کاری جنگ بندی سے آگے جا کر کی تھی۔ اور لگتا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو جنگ بندی کی شرائط میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے عالمی طاقتوں کو آمادہ کرلیا ہے۔ اس جنگ بندی میں پاکستان کو عالمی سطح پر چین، ترکی اور آذربائیجان کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ بھارت کو جنگی جرائم میں عالمی عدالتِ انصاف کو مطلوب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت حاصل رہی۔

جنگ شروع ہونے سے قبل امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارت کا دورہ مکمل کیا تھا۔ اور جس وقت پہلگام کا واقعہ رونما ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ یعنی بھارت سفارتی سطح پر اعلٰی ترین رابطوں میں مصروف تھا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی ابھی تک کسی بھی امریکی اعلیٰ عہدیدار سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے سے قبل بھارت نے اعلیٰ امریکی قیادت بشمول امریکی صدر، کو یہ باور کرایا ہوا تھا کہ پاکستانی دفاعی نظام بھارت کے حملوں کے آگے ٹک نہ سکے گا۔ مگر سات مئی کے بھارت کے حملے میں اس کو جو نقصان ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح دس مئی کو جو جواب دیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس جواب نے امریکی صدر اور انتظامیہ کے اہم افراد کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد سے بہتر سفارت کاری کی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کو دنیا نے مثبت لیا تھا۔ مگر بھارت اپنی عددی طاقت کے نشے میں ایسا دھت تھا کہ وہ سفارتی سطح پر آنے والے پیغام کو ڈھنگ سے سمجھ نہ سکا۔ اور جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی زبان اس کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

اب بھارتی حکومت کی سرپرستی میں گودی میڈیا نے ان ملکوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی براہ راست حمایت یا معاونت کی ہے یا پھر انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کرانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بھارت کے ہیرو میجر گورو آریا جس کی زبان گالی اور گندگی کے علاوہ اور کچھ اگل نہیں رہی ہے، اس نے ایران کی جانب سے مفاہمت کی کوشش کرنے والے وزیر خارجہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے جس پر ایران نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں بی جے پی کے کارکنوں نے سعودی عرب کے جھنڈے کی بے حرمتی کی جس نے نہ صرف سعودی عرب کو ناراض کیا بلکہ پوری مسلم امہ میں بھارت کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں فرانسیسی رافیل طیارے، مقامی طور پر تیار کردہ میزائل، اسرائیلی ڈورونز، روسی فضائی دفاعی نظام کو تباہ کروا کے ان ملکوں کی ٹیکنالوجی کو بے توقیر کروایا۔ مگر پاکستان نے بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی رافیل طیارے دینے والے فرانس کے خلاف اور نہ ہی ایس 400 ڈیفنس سسٹم دینے پر روس کے خلاف کوئی بیان دیا گیا۔ مگر پاکستان کی سفارتی حمایت اور فوجی معاونت کرنے والے ممالک کے خلاف بھارت کے گودی میڈیا کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔

بھارت کی ایک نیوز ایجنسی جس کو را کی جانب سے خبریں اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں نے ایک مضمون میں ترکیہ کو دھمکی دی ہے کہ بھارت اپنے براہمسترا میزائل سے چھ منٹ میں اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کے علاوہ بھارتی ایوی ایشن سکیورٹی ادارے بی سی اے ایس نے جمعرات کو ترکیہ کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی ائیرپورٹ سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی ہے۔ ترکیہ کی یہ ایجنسی بھارت کے نو ایئرپورٹس ممبئی، دہلی، کوچی، کنور، بنگلور، حیدرآباد، گوا، احمد آباد اور چنئی پر جہازوں کی ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

اسی طرح بھارت نے پاکستان کی کھل کر حمایت کرنے پر آذربائیجان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ اور ٹریول ایجنیسوں نے اس ملک کا سیاحتی بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پر خاموشی اور بائیکاٹ مہم کے خلاف کارروائی نہ کرنے کو بھارت سرکار کی آشیر باد تصور کیا جا رہا ہے۔

چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف بائیکاٹ مہم بھارتی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر بھارت کے سفارتی سطح پر منفی رویّے پر معروف امریکی پروفیسر کرسٹین فیئر نے بھی حالیہ جنگی معرکے میں بھارتی کامیابی کے دعوؤں کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ بھارتی سفارت کاری سے جھلکتے ہوئے اس کے رویّے کو کاٹ کھانے جیسا قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ کرسٹین فیئر پاکستان کے خلاف کھلم کھلا معاندانہ رویہ اختیار کرتی رہی ہیں اور ہماری سخت ناقدین میں سے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کرسٹین فیئر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے رویوں میں بہت فرق ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں سفارت کاری میں آداب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کے آفیشلز کا رویہ بہت نرم اور مہذب رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی ذاتی مثال پیش کی کہ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف باتیں اور تجزیے کررہی ہیں۔ مگر پاکستانی ان سے نرمی سے بات کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت کی حمایت کرنے کے باوجود بھارتی جب بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل اور بعد میں پاکستان کی سفارت کاری بہتر رہی مگر لگتا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی سطح پر اپنا رویہ درست نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ملکوں سے بھی بھارت کے نامناسب رویّے نے سفارتی سطح پر بھی اس کی تنہائی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی مالدیپ کا سیاحتی بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ جب کہ خطے کے دیگر ملک بھوٹان، نیپال، میانمار، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی جانب سے بھی بھارت کو کسی قسم کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

گزشتہ صدی کے اختتام تک بھارت نے ایک غیر جانب دار ملک کے طور پر اپنی سفارتی شبیہہ بنائی تھی جو رواں صدی کے آغاز پر آہستہ آہستہ مٹنے لگی تھی اور اب بھارت اپنی اکڑ اور درشت رویّے کی وجہ سے سفارتی طور پر تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے۔

اہم ترین

راجہ کامران
راجہ کامران
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

مزید خبریں