منگل, جون 10, 2025
اشتہار

تین ہفتوں میں تیسرا بڑا حملہ، بھارتی فوج کی خاموشی اور بڑھتے نقصانات

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت اور میانمار کے درمیان 1,643 کلومیٹر طویل غیر محفوظ اور کٹھن سرحدی پٹی ایک بار پھر خطرناک جنگی کشیدگی کا مرکز بن چکی ہے۔ اروناچل پردیش، منی پور، ناگالینڈ اور میزورم سے گزرتی یہ سرحد برسوں سے بھارت کی قومی سلامتی کے لیے ایک مستقل چیلنج رہی ہے، لیکن اب اس پر دوبارہ خون بہنے لگا ہے۔ حالیہ جھڑپوں اور بھارتی فوج کی پراسرار خاموشی نے اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ یہ علاقہ بھارت کے لیے ایک نئے ‘کشمیر’ کا روپ دھار سکتا ہے۔

حالیہ جھڑپیں: حملے، ہلاکتیں اور خاموشی

5 جون کو اروناچل پردیش کے لانگڈنگ ضلع میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کا شدت پسندوں سے زبردست مقابلہ ہوا۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں نے گھنے جنگلات کا سہارا لیتے ہوئے شدید فائرنگ کی اور بعد ازاں میانمار کی حدود میں فرار ہو گئے۔ 6 جون کو سرچ آپریشن کے دوران دو شدت پسند مارے گئے جن کا تعلق کالعدم تنظیم این ایس سی این (کے-وائی اے) سے بتایا گیا — جو بھارت کے ساتھ سیزفائر معاہدے سے انکاری ہے۔

یہ ایک ماہ میں تیسرا بڑا حملہ ہے:

  • 14 مئی کو منی پور کے ضلع چندیل میں آسام رائفلز کے ساتھ جھڑپ میں 10 شدت پسند مارے گئے اور بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔
  • 27 اپریل کو لانگڈنگ میں ایک اور جھڑپ میں 3 شدت پسند ہلاک ہوئے۔

بھارتی فوج آسام رائفلز کے نقصانات پر خاموش — نقصانات چھپائے جا رہے ہیں؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارتی فوج نے اب تک اپنے نقصانات کی کوئی تصدیق نہیں کی، جب کہ مقامی میڈیا مکمل خاموش ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر معلومات چھپا رہا ہے تاکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ ماضی میں بھی بھارتی فوج پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور حقائق کو چھپانے کے الزامات لگتے رہے ہیں، جس سے مقامی آبادی میں نفرت اور تشدد کو فروغ ملتا ہے۔

ماضی سے سبق نہیں سیکھا گیا؟

یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت کو میانمار سرحد پر خون بہانا پڑا ہو۔ جون 2015 میں منی پور کے ضلع چندیل میں عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا، جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھارت نے پہلی بار اعلان کردہ طور پر میانمار کے اندر گھس کر عسکری کارروائی کی، جسے "سرجیکل اسٹرائیک” قرار دیا گیا تھا۔

اربوں کا منصوبہ، لیکن زمین پر کچھ نہیں!

ستمبر 2024 میں بھارتی حکومت نے کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی کے ذریعے 31,000 کروڑ روپے کے ایک منصوبے کی منظوری دی، جس کا مقصد پورے سرحدی علاقے کو باڑ لگا کر محفوظ کرنا اور گشت کے لیے راستے بنانا تھا۔ لیکن آج تک یہ منصوبہ زیادہ تر کاغذوں میں دفن ہے — کیونکہ:

  • پہاڑی اور دشوار گزار علاقہ۔
  • مقامی آبادی کی مزاحمت۔
  • میانمار سے سرگرم گروہوں جیسے پیپلز ڈیفنس فورس کے حملے۔

نئی لہر کا خطرناک چہرہ: NSCN (K-YA)

حالیہ جھڑپوں میں نمایاں نام نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالِم – کے-وائی اے (NSCN-K-YA) کا ہے، جو نہ صرف سیزفائر معاہدے سے باہر ہے بلکہ میانمار کے اندر چھپ کر حملے کرنے میں ماہر ہے۔ یہ گروہ ماضی کی تمام مذاکراتی کوششوں کو مسترد کرتا آ رہا ہے اور اب بظاہر بھارت کے خلاف دوبارہ منظم کارروائیاں کر رہا ہے۔

بھارت ایک نئی "خاموش جنگ” میں داخل ہو چکا ہے!

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بھارتی فوج اور حکومت نے میانمار سرحد پر سچ، شفافیت اور حکمت عملی کو اپنایا نہ تو یہ علاقہ ایک نئے کشمیر میں تبدیل ہو سکتا ہے — گھنے جنگلات، دلیر دشمن اور کمزور حکمت عملی کے ساتھ بھارتی فوج ایک ناکام لڑائی میں مصروف ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں